Allama Iqbal's Poetry
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

ارمغان حجاز

مندرجات

اِبلیس کی مجلسِ شُوریٰ
بُڈھّے بلوچ کی نِصیحت بیٹے کو
تصویر و مُصوّر
عالمِ بَرزخ
معزول شہنشاہ
دوزخی کی مُناجات
مسعود مرحوم
آوازِ غیب
رُباعِیات
مری شاخِ اَمل کا ہے ثمر کیا
فراغت دے اُسے کارِ جہاں سے
دِگرگُوں عالمِ شام و سحَر کر
غریبی میں ہُوں محسودِ امیری
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
کہا اقبالؔ نے شیخِ حرم سے
کُہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد
حدیثِ بندۂ مومن دل آویز
تمیزِ خار و گُل سے آشکارا
نہ کر ذکرِ فراق و آشنائی
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خِرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
مُلّا زادہ ضیغم لولا بی کشمیری...
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے...
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و...
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا...
دُرّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ...
رِندوں کو بھی معلوم ہیں صُوفی کے...
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ...
سمجھا لہُو کی بوند اگر تُو اسے...
کھُلا جب چمن میں کتب خانۂ گُل
آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
دِگرگُوں جہاں اُن کے زورِ عمل سے
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں...
چہ کافرانہ قِمارِ حیات می بازی
ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ...
حاجت نہیں اے خطّۂ گُل شرح و بیاں...
خود آگاہی نے سِکھلا دی ہے جس کو...
آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور
غریبِ شہر ہوں مَیں، سُن تو لے...
سر اکبر حیدری، صدرِ اعظم حیدر...
حُسین احمد
حضرتِ انسان

اِبلیس کی مجلسِ شُوریٰ


۱۹۳۶ء
اِبلیس
یہ عناصِر کا پُرانا کھیل، یہ دُنیائے دُوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنّاؤں کا خوں!
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھّا تھا جہانِ کاف و نوں
میں نے دِکھلایا فرنگی کو مُلوکیّت کا خواب
مَیں نے توڑا مسجد و دَیر و کلیِسا کا فسوں
مَیں نے ناداروں کو سِکھلایا سبق تقدیر کا
مَیں نے مُنعِم کو دیا سرمایہ داری کا جُنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو اِبلیس کا سوزِ دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کُہن کو سرنِگُوں!
پہلا مُشیر
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ اِبلیسی نظام
پُختہ تر اس سے ہوئے خُوئے غلامی میں عوام
ہے اَزل سے ان غریبوں کے مقدّر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام
طبعِ مشرق کے لیے موزُوں یہی افیون تھی
ورنہ ’قوّالی‘ سے کچھ کم تر نہیں ’علمِ کلام‘!
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمانِ جدید؟
’ہے جہاد اس دَور میں مردِ مسلماںپر حرام!
دُوسرا مُشیر
خیر ہے سُلطانیِ جمہور کا غوغا کہ شر
تُو جہاں کے تازہ فِتنوں سے نہیں ہے با خبر!
پہلا مُشیر
ہُوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیّت کا اک پردہ ہو، کیا اُس سے خطر!
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہُوری لباس
جب ذرا آدم ہُوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجودِ مِیر و سُلطاں پر نہیں ہے منحصَر
مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سُلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام
چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!
تیسرا مُشیر
روحِ سُلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اُس یہُودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیمِ بے تجلّی، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہِ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب!
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب!
چوتھا مُشیر
توڑ اس کا رومۃُالکُبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آلِ سیزر کو دِکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
کون بحرِ روم کی موجوں سے ہے لِپٹا ہُوا
’گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب‘
تیسرا مُشیر
مَیں تو اُس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کِیا یوں بے حجاب
پانچواں مُشیر
( اِبلیس کو مخاطَب کرکے)
اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم اُستوار!
تُو نے جب چاہا، کِیا ہر پردگی کو آشکار
آبِ و گِل تیری حرارت سے جہانِ سوز و ساز
ابلہِ جنّت تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابَد تک سرنِگون و شرمسار
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحِر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فِتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بُروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جُنوں سے تار تار
زاغِ دشتی ہو رہا ہے ہمسرِ شاہین و چرغ
کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار
چھا گئی آشُفتہ ہو کر وسعتِ افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مُشتِ غبار
فِتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جُوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
اِبلیس
( اپنے مُشیروں سے)
ہے مرے دستِ تصرّف میں جہانِ رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بتُو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
مَیں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہُو
کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو
کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!
دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمّت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضُو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایّام ہے
مزدکِیّت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!

جانتا ہُوں میں یہ اُمّت حاملِ قُرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں
جانتا ہُوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذَر! آئینِ پیغمبر سے سَو بار الحذَر
حافظِ نامُوسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسمِ شش جہات
ہو نہ روشن اُس خدا اندیش کی تاریک رات
ابن مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے
ہیں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جُدا یا عینِ ذات؟
آنے والے سے مسیحِ ناصری مقصود ہے
یا مجدّد، جس میں ہوں فرزندِ مریم کے صفات؟
ہیں کلامُ اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
اُمّتِ مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دَور میں
یہ الٰہیات کے ترشے ہُوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھّو عالمِ کردار سے
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مُہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اَوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوّف اس کے حق میں خوب تر
جو چھُپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہر نفَس ڈرتا ہُوں اس اُمّت کی بیداری سے مَیں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
اِبلیس کی مجلسِ شُوریٰ

بھی موجود ہے


logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان