Official Website of Allama Iqbal
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

تعزیتی ریفرنس بیاد اسلم کمال

مصور اقبال وخط کمال کے موجد جناب اسلم کمال کی وفات پر اقبال اکادمی پاکستان اور ایوان اقبال کمپلیکس کے اشتراک سے تعزیتی ریفرنس "بیاد اسلم کمال''کا انعقاد ایوان اقبال کمپلیکس میں کیا گیا۔ جس میں علم و ادب ، خطاطی و مصوری کے ماہرین اور جناب اسلم کمال مرحوم کے بیٹے جناب فہیم کمال، بیٹی محترمہ عظمی کمال سمیت ان کے رفقاء کار نے اظہار خیال کیا۔ شرکا میں ڈاکٹر طارق شریف زادہ ، ڈاکٹر فوزیہ تبسم، ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم، جناب فاروق بھٹی ، ڈاکٹر محمد ابرار، کنور عبدالماجد اور محترمہ صفیہ صابری شامل تھے۔اختتامی کلمات ڈائریکٹر اقبال اکادمی اکستان ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی نے پیش کیے ۔نظامت چودھری فہیم ارشد نے کی۔
جناب فہیم کمال نے اپنے والد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ علامہ اقبال ان کی رگ و جاں میں سمایا ہوا تھا۔ ان کی ہر بات میں ذکر اقبال ضرورہوتا۔ ان کے فن پاروں میں اقبال کا الہام، غالب کی شاعری اور فیض احمد فیض کے انقلاب کی جھلک دکھلائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر ندیم جاوید اقبال نے کہا کہ پاکستان کے بیشتر اداروں میں جناب اسلم کمال مرحوم کے مصوری و خطاطی کے فن پارے آویزاں نظر آتے ہیں۔ جو ان کے فن کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ڈاکٹر طارق شریف زادہ نے کہا کہ سیرت نگاری کے حوالے سے جناب اسلم کمال مرحوم کا کام منفرد تھا۔ انہوں نے اسفار رسول ﷺاور ان کے خطوط کے حوالے سے بھی کام کیا۔ ڈاکٹر محمد ابرار نے کہا کہ فکر اقبال کی مصوری کے حوالے سے جو خداداد صلاحیت ان کو حاصل تھی وہ آج تک کسی کے حصے میں نہیں آئی۔کسی بھی فکر کو آسانی سے کینوس میں اتار لیتے تھے۔
ڈاکٹر فوزیہ تبسم نے کہا کہ اسلم کمال خط ِ کمال کے موجد تھے مگر اُس کے ساتھ ساتھ وہ شاعر تھے، ادیب تھے اور اُن کا تخلیقی کام ”اقبالیاتی مصوری“ سے روشناس کرواتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے اس کے علاوہ اُن کی بیشتر تخلیقات اب بلاشبہ نوادرات کا درجہ پا چکی ہیں۔ اسلم کمال ایک مکتب فکر اور معیارِ فن کا نام ہے۔
جناب فاروق بھٹی نے کہا کہ پاکستان کو اسلم کمال کی ضرورت ہے ان کے کام کو ڈیجٹیلائز کرنا ہوگا۔کنور عبدالماجد نے کہا کہ ان کا کام بولتا ہے اور زندہ و جاوید ہے۔
محترمہ عظمی کمال نے کہا میرے والد ارض پاکستان سے بے لوث محبت کرتے تھے۔ وہ وقت کے بڑے قدر دان تھے۔ دوستی کا بے لوث جذبہ ہی انہیں معاشرتی ناہمواریاں کی وجہ سے اکثر اداس کر دیتا تھا۔ کام میں انتہائی مستغرق رہتے انہوں نے اپنی ساری عمر مصورانہ خطاطی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی نے تمام معزز مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہا کہ جناب اسلم کمال ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کی وطن کے لیے خدمات قابل تحسین ہیں۔ اسلم کمال کے کام کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی نے کہا کہ اقبال اکادمی پاکستان اپنی ویب گاہ پر "گوشہ اسلم کمال" بنائے گی جس میں اسلم کمال کے تمام فن پارے اور شاہکار محفوظ کیے جائیں گے۔ تاکہ آنے والی نسلیں فن مصوری کے اس ماہر کے فن سے مستفید ہو سکیں۔
تقریب کے اختتام پر جناب اسلم کمال کی روح کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئ۔ جناب فہیم کمال اور عظمی کمال نے اس تعزیتی سیمینار کے انعقاد پر ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان ڈاکٹر عبدالرؤف رفیقی اور آنے والے شرکا کا شکریہ ادا کیا۔