www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

فلسفہ عجم

فلسفہ عجم

مندرجات

دیباچۂ
حصہ اوّل قبل اسلامی فلسفۂ ایران
باب اوّل ایرانی ثنویت
حصہ دوم یونانی ثنویت
باب دوم ایران کے نوفلاطونی...
باب سوم اسلام میں عقلیت کا عروج...
باب چہارم - تصوریت اور عقلیت کے...
باب پنجم - تصوف کا مآخذ اور قرآن...
باب ششم - مابعد کا ایرانی تفکر
خاتمہ


دیگر زبانیں

باب چہارم

تصوریت اور عقلیت کے مابین تنازع

اشاعرہ نے ارسطو کے مادۂ اولیٰ کا جو ابطال کیا تھا، اور زمان و مکان و تعلیل کی ماہیت کے متعلق جو خیالات پیش کیے تھے اُن سے مناقشہ کی ایک ایسی زبردست روح بیدار ہوگئی جس سے صدیوں تک مسلمان مفکرین کی جماعتوں میں تفریق و اختلاف قائم رہا۔ اور بالآخر اس نے اپنے قوت کو ان فرقوں کی محض لفظی نزاکتوں میں زائل کردیا۔ نجم الدین الکاتبی (یہ ارسطو کا پیرو تھا، اس کے شاگرد فلاسفہ کہلاتے تھے، جومدرسی متکلمین سے بالکل متمائز تھے) کی حکمت العین یا فلسفہ جوہر کی اشاعت نے اس ذہنی پیکار و تنازع میں اور شدت پیدا کردی اور اس پر اشاعرہ و دیگر تصوری مفکرین کی جانب سے تنقیدیں ہونے لگیں۔ میںاُن اہم اُمور سے علی الترتیب بحث کروں گا جن کی نسبت ان دو مکاتب کو ایک دوسرے سے اختلاف تھا۔
(ا) جوہر کی ماہیت۔
ہم نے یہ معلوم کرلیا ہے کہ اشاعرہ کے نظریۂ علم نے اُن کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ مختلف اشیا کے انفرادی جواہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور انتہائی یاخدا ان کو متعین کرتا ہے۔ انھوں نے ایسے ابتدائی مادہ کے وجود سے انکار کردیا جو ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، اور تمام اشیا میں مشترک ہے۔ عقلئین کے خلاف ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وجود ہی جوہر کی ماہیت ہے۔ ان کے نزدیک جوہر اور وجود ایک دوسرے کی عین ہیں۔ انھوں نے یہ استدلال کیا کہ یہ تصدیق کہ “انسان حیوان ہے” اس وقت ممکن ہوسکتی ہے جب کہ موضوع اور محمول میں کوئی اساسی فرق ہو کیونکہ ان کی مماثلت اس تصدیق کو مہمل بنا دے گی اور ان کا اختلاف کلی محمول کو باطل کردے گا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ایک ایسی خارجی علت کو فرض کیا جائے جو وجود کی مختلف صورتوں کو متعین کرتی ہے بہرحال ان کے مخالفین وجود کی اس تحدید و تعین کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وجود کی مختلف صورتیں ایک دوسرے کی عین ہیں، اور یہ سب ایک ابتدائی جوہر ہی کے تعینات ہیں۔ محمولِ ترکیبی کے امکان سے جو دشواری پیدا ہوگئی تھی اس کو رفع کرنے کے لیے اسطو کے پیروئن نے جواہر مرکبہ کے امکان کو پیش کیا۔ اُنھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ تصدیق کہ “انسان حیوان ہے” صحیح ہے، کیونکہ انسان ایک جوہر ہے جو انسانیت اور حیوانیت کے دو جواہر مرکب ہے۔ اُس کا اشاعرہ نے یہ جواب دیا کہ یہ خیال تنقید کی زد سے نہیں بچ سکتا۔ اگر تم یہ کہو گے کہ انسان اور حیوان کا جوہر ایک ہی ہے تو دوسرے الفاظ میں تم اس بات کو مان رہے ہو کہ کل کا جوہر وہی ہے جو جزو کا ہے۔ یہ قضیہ بالکل مہمل ہے، کیونکہ اگر مرکب کا بھی وہی جوہر ہو جو اُس کے اجزائے ترکیبی کا ہے تو اس مرکب کو ایک ہی ہستی سمجھنا پڑے گا جس کے دو جواہر یا وجود ہیں۔
یہ بالکل بدیہی ہے کہ یہ بحث ہر پھر کر اس سوال پر آتی ہے کہ آیا وجود محض ایک تصور ہے یا اس کی کوئی خارجی حقیقت بھی ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی شے موجود ہے تو اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ محض ہمارے تعلق سے اس کا وجود ہے (اشاعرہ کا نقطۂ نظر) یا یہ کہ یہ ایسا جوہر ہے جو ہم سے علیحدہ اور مستقل وجود رکھتا ہے (حقیقین کا نقطۂ نظر)۔ ہم دونوں فریق کے دلائل کو اجمالی طور پر پیش کریں گے۔ حقیقین کا استدلال حسب ذیل ہے:
(۱) میرے وجود کا تصور ایک بدیہی یا وجدانی چیز ہے۔ یہ خیال کہ “میں موجود ہوں” ایک “تصور” ہے اور میرا جسم اس تصور کا ایک عنصر ہے۔ اس سے یہ نتیجہ لازم آتا ہے کہ جسم کے متعلق وجدانی طور پر یہ علم ہوتا ہے کہ یہ کوئی حقیقی شے ہے۔ اگر کسی موجود شے کا علم بدیہی نہ ہو تو اس کے ادراک کے لیے عمل فکر کی ضرورت لاحق ہوگی اور ہم کو معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ الرازی نے جن کا تعلق اشاعرہ سے ہے، یہ تسلیم کیا کہ وجود کا تصور بدیہی ہے، لیکن وہ اس تصدیق کو کہ “وجود کا تصور بدیہی ہے” محض ایک اکتساب کی چیز سمجھتے ہیں۔ اس کے برخلاف محمد ابن مبارک بخاری کا خیال ہے کہ حقیقین کا سارا استدلال اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ “میرے وجود کا تصور ایک بدیہی چیز ہے” لیکن یہ ابھی ایک بحث1 طلب امر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ میرے وجود کا تصور بدیہی ہے تو وجود مجرد کو اس تصور کا جزو ترکیبی نہیں سمجھا جاسکتا۔ اگر حقیقین کا یہ دعویٰ ہے کہ انفرادی شے کا ادراک بدیہی ہوتا ہے، تو ہم اس قول کی صداقت کو تسلیم کرلیتے ہیں، لیکن اس سے یہ نتیجہ لازم نہیں آتا، جیسا کہ وہ ثابت کرتا چاہتے ہیں کہ اُس نام نہاد جوہر کا علم جو اس شے کے عقب میں ہے خارجی حقیقت کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔ حقیقین کے استدلال سے یہ لازم آتا ہے کہ ذہن اُن صفات کو تعقل سے قاصر رہنا چاہیے جو اشیا پر محمول ک ی جاتی ہیں۔ ہم نہیں خیال کرسکتے کہ “برف سفید ہے” کیونکہ سفیدی کا علم اس بدیہی تصدیق کا ایک جزو ہونے کے لحاط سے محمول کیے جانے کے بغیر فوری اور بدیہی ہونا چاہیے۔ ملا محمد ہاشم حسینی2 کہتے ہیں کہ یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ برف پر سفیدی کو محمول کرتے وقت ہمارا ذہن ایک خالص تصوری وجود یعنی سفیدی کی صفت پر غور کرتا ہے نہ کہ کسی ایسے خارجی و حقیقی جوہر پر جس کے مختلف پہلو یہ صفات ہیں حسینی نے ہملٹن کی پیش بینی کی تھی۔ دوسرے حقیقین سے وہ اس امر پر مختلف الرائے تھے کہ شے کے نام نہاد و ناقابل علم جوہر کا بھی بدیہی علم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شے واحد ہونے کی حیثیت3 سے بداہتہً ادراک کی جاتی ہے۔ ہم اپنے مفروضات ادراک کے مختلف پہلوئوں کا علی التواتر ادراک نہیں کرتے۔
(۲) حقیقین کہتے ہیں کہ تصورین تمام صفات کو محض ذہنی علائق میں تحویل کردیتے ہیں۔ ان کا استدلال اشیا کے پوشیدہ جواہر کے ابطال اور اس خیال کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ اشیا محض صفات کے متبائن مجموعات ہیں اور ان کی حقیقت صرف ان کے مظاہر کے ادراک پر مشتمل ہے۔ اس اعتقاد کے باوجود کہ اشیا کلیتہً متبائن ہیں وہ وجود کا لفظ تمام اشیا پر منطبق کرتے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا اعتراف ہے کہ کوئی ایسا جوہر بھی ہے جو وجود کی مختلف صورتوں میں مشترک ہے۔ ابوالحسن الاشعری کہتے ہیں کہ یہ اطلاق محض ایک لفظی سہولت ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ اشیا کے باطنی توافق کو ظاہر کیا جائے۔ حقیقین کے نقطۂ نظر سے تصورین کے لفظ وجود کا عمومی اطلاق کا یہ مطلب ہونا چاہیے کہ کسی شے کا وجود ہی اُس کا جوہر ہے یا یہ ایسی چیز ہے جو اشیا کے پوشیدہ جوہر پر اضافہ کی گئی ہے۔ پہلا مفروضہ اشیا کے متجانس ہونے کا کھلا اعتراف ہے، کیونکہ ہم یہ نہیں … سکتے کہ ایسا وجود جو ایک شے سے مخصوص ہے وہ اُس وجود سے کلیتہً مختلف ہے جو دوسری شے سے مخصوص ہے یہ مفروضہ کہ وجود کسی کے جوہر پر ایک اضافہ ہے بالکل بے معنی ہے کیونکہ ایسی صورت میں جوہر کو ایسی چیز سمجھنا پڑے گا جو وجود سے مختلف و متمائز ہے۔ اور جوہر کا ابطال اشاعرہ کے نقطۂ نظر سے، وجود و عدم کے امتیاز کو مٹا دے گا۔ اس کے سوا وجود کے اضافہ کیے جانے سے پیشتر خود جوہر کیا تھا؟ ہم کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ جوہر واقعاً وجود میں آنے سے پہلے وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار تھا، یونکہ اس بیان سے لازم آئے گا کہ “وجود” وجود میں آنے سے پہلے عدم میں تھا۔ اسی طرح یہ بیان کہ جوہر میں عدم کی صفت کو قبول کرنے کی قوت ہے، اس مہمل خیال کو مستلزم ہے وہ (عدم) پیشتر ہی سے موجود تھا۔ لہٰذا وجود کو جوہر ہی کا ایک جزو سمجھنا چاہیے۔ اگر وہ جوہر کا ایک جزو ہے تو جوہر کو مرکب سمجھنا پڑے گا۔ اس کے برخلاف اگر وجود جوہر سے خارج ہے تو یہ کوئی “ممکن” شے ہوگی، کیونکہ یہ اپنے سوال کسی اور شے پر قائم ہوگی ہر “ممکن” کی ایک علت ہوتی ہے۔ اگریہ علت خود یہ جوہر ہے تو اس سے یہ نتیجہ لازم آئے گا کہ جوہر وجود میں آنے سے پیشتر ہی موجود تھا، کیونکہ علت کو معلول سے پہلے موجود ہونا چاہیے۔ اگر وجود کی علت جوہر کے علاوہ کچھ اور ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ خدا کے وجود کی توجیہ بھی کسی ایسی علت سے کی جانی چاہیے جو خدا کے جوہر سے علیحدہ ہو۔ یہ ایسا مہمل نتیجہ ہے جو “واجب” کو “ممکن”4 بنا دیتا ہے۔ حقیقین کا یہ استدلال تصورین کے نقطۂ نظر کی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ تصورین نے کبھی یہ خیال نہیں کیا کہ وجود کسی شے کے جوہر پر ایک اضافہ ہے، بلکہ وجود ان کے نزدیک جوہر کی عین ہے۔ ابن مبارک کہتا ہے کہ جوہر وجود کی علت ہے گو وہ بلحاظِ زمانہ اس سے پہلے نہیں ہے۔ جوہر کی ہستی خود اُس کے وجود پر مشتمل ہے، وہ اپنے سوا کسی اور شے پر قائم نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک صحیح نظریۂ علم سے کوسوں دور ہیں۔ ایسے حقیقین جولا ادری ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اشیا کے مظاہر و صفات کے عقب میں ضرور کوئی جوہر ہے جو بطور علت کے عمل کرتا ہے، وہ ایک کھلے تناقض کے مجرم ہیں۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شے کے عقب میں ایک ناقابل علم جوہر یا محل جوہری ہے جس کے متعلق ہم وک یہ علم ہے کہ وہ موجود ہے۔ اُن اشاعرہ نے جو تصورین تھے علم کے عمل کو سمجھنے میں غلطی کی۔ انھوں نے اس ذہنی فعلیت کو نظر انداز کردیا جس پر عمل مشتمل ہے۔ وہ ادراکات کو محض احضارات سمجھنے لگے، جو بقول ان کے منجانب خدا متعین کیے گئے ہیں۔ لیکن اگر ترتیبِ احضارات کی توجیہ کے لیے ایک علت کا وجود ضروری ہے تو اس علت کو مادہ کی ابتدائی ساخت میں کیوں نہ تلاش کیا جائے، جیسا کہ لاک نے کیا تھا اس کے سوا یہ نظیہ کہ علم ان اشیا کا محض ایک انفعالی ادراک یا آگہی ہے جو ذہن کے آگے پیش ہوتی ہیں، ہم کو چند ایسے ناقابل تسلیم نتائج تک لے جاتا ہے جن کا اشاعرہ کو گمان تک نہ تھا۔
(ا) اُنھوں نے یہ نہیں خیال کیا کہ علم کا خالص ذہنی تصور غلطی کے امکان ہی کو مٹا دیتا ہے۔ اگر کسی شے کا وجود صرف اس واقعہ پر منحصر ہو کہ وہ ذہن کے آگے پیش ہوجائے تو یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں کہ یہ شے اس سے مختلف ہے جو ہمیں دکھائی دیتی ہے۔
(ب) اُنھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اُن کے نظریۂ علم کے مطابق عالم مادی کے دیگر عناصر کی طرح خود ہمارے ابنائے جنس کی اس سے زیادہ کوئی اصلیت نہ رہے گی کہ وہ میرے ہی شعور کے مختلف احوال ہیں۔
(ج) اگر احضارات کے قبول کرنے ہی کا نام علم ہے تو خدا بھی، جو احضارات کی علت ہے اور ہمارے علم کی تشکیل میں عمل حصہ لیتا ہے، ہمارے احضارات سے ناواقف رہے گا۔ اشاعرہ کے نقطۂ نظر سے یہ نتیجہ خود ان کے مسلک کے لیے مہلک ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ احضارات جب میرے ذہن میں باقی نہیں رہتے تو وہ خدا کے شعور میں باقی رہتے ہیں۔
جوہر کے متعلق ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا اُس کی کوئی علت بھی ہے، یا یہ بلا علت کے موجود ہے۔ ارسطو کے پیرو یا فلاسفہ نے، جیسا کہ اُن کے مخالفین نے عام طور پر ان کو یہ لقب دیا تھا، یہ دعویٰ کیا تھا کہ اشیا کی تہہ ارسطاطالیسئین کا خیال ہے کہ جوہر پر کوئی خارجی حامل5 اثر و عمل نہیں کرسکتا۔ الکاتبیی نے یہ بحث کی ہے کہ اگر انسانیت کا جوہر کسی خارجی فعلیت کے عمل و اثر کا نتیجہ ہوتا تو اس بات میں شک کرنا ممکن تھا کہ آیا یہ انسانیت کا حقیقی جوہر بھی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم اس قسم کا شک ہی نہیں رکتے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جوہر کسی ایسے عمل کی فعلیت کا نتیجہ نہیں جو اس سے باہر ہے۔ تصورین اپنی بحث کو حقیقین کے جوہر و وجود کے امتیاز شروع کرکے یہ کہتے ہیں کہ حقیقین کا طرزِ استدلال اس مہمل قضیہ کی طرف لے جائے گا کہ انسان بلا علت کے موجود ہے، کیوں کہ اُس کو حقیقین کے نقطۂ نظر کے مطابق دو ایسے جواہر وجود اور انسانیت کا مجموعہ سمجھنا پڑے گا جو بلاعلت کے موجود ہیں۔
(ب) علم کی ماہیت
ارسطو کے پیرو اپنے اس نقطۂ نظر کے مطابق کہ جوہر ایک مستقل خارجی حقیقت ہے، علم کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ یہ “اشیائے”6 خارجی کی شبیہ یا تمثال کے حصول کا نام ہے۔ وہ یہ بحث کرتے ہیں کہ کسی ایسی شے کو خیال میں لانا ممکن ہے، جو خارجی حیثیت سے غیر حقیقی ہو اور اُس کو دوسری صفات سے متصف کیا جاسکتا ہو۔ لیکن جب ہم اس کو وجود کی صفت سے متصف کرتے ہیں تو واقعی وجود لازم ہوجاتا ہے، کیونکہ شے کی صفت کا اثبات خود اُس شے کا اثبات کا ایک جزو ہے۔ لہٰذا اگر کسی شے پر وجود کی صفت کو محمول کیا جائے اور اس سے اس شے کا واقعی و کارجی وجود لازم نہ آئے تو ہم خارجیت سے انکار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ہم کو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ شے ذہن میں محض ایک تصور کی حیثیت سے موجود ہے۔ ابن مبارک کہتا ہے کہ کسی شے کا اثبات خود اُس شے کے وجود پر دلالت کرتا ہے۔ تصورین اثبات اور وجود کے مابین کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ مندرجہ بالا استدلال سے اگر یہ نتیجہ مستنبط کیا جائے کہ شے کو موجود فی الذہن سمجھنا چاہیے تو اس کا کوئی جواز نہ ہوگا۔ “تصوری” وجود صرف خارجیت کے انکار سے لازم آسکتا ہے۔ لیکن اشاعرہ خارجیت سے انکار نہیں کرتے، کیوں کہ وہ علم کے متعلق یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ عالم اور ایسے “معلوم” کی باہمی نسبت کا نام ہے جو خارجی حیثیت رکھتا ہے۔ الکاتبیی کا یہ قضیہ کہ اگر کوئی شے خارجی وجود نہ رکھتی ہو تو اُس کا وجود تصوری یا ذہنی ہوگا، ایک بدیہی تناقص ہے، کیوں کہ خود اس کے اصول کے مطابق ہر شے جو تصور میں موجود7 ہے وہ خارجی حیثیت سے بھی موجود8 ہے۔
(ج) عدم کی ماہیت
الکاتبیی نے اس قضیہ پر کہ “وجود خیر ہے اور عدم شر” تنقید و تبصرہ کیا ہے، جو اُس کے ہم عصر فلاسفہ میں عام طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ قتل کا واقعہ اس لیے شر نہیں ہے کہ قاتل میں اس فعل کے صدور کی قوت تھی یا آلۂ قتل میں کاٹنے کی قوت تھی یا مقتول کی گردن میں کٹ جانے کی صلاحیت تھی بلکہ یہ اس لیے شر ہے کہ اس سے نفی حیات ظاہر ہوتی ہے۔ اور یہ ایسی صورت ہے جو عدم کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن یہ ثابت کرنے کے لیے عدم شر ہے ہم کو استقرائی تحقیق اور شر کی مختلف صورتوں کو جانچ کرنی چاہیے۔ استقرا تام تو بہرصورت ناممکن ہے، اور استقرا ناقص اس کو ثابت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا الکاتبیی اس قضیہ کو مسترد کردیتا ہے، اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عدم کلیتہً “لا شے”9 ہے۔ اس خیال کے مطابق جواہر ممکنہ صفتِ وجود کے انتظار میں “مکان” میں بے حرکت نہیں پڑے ہوئے ہیں، ورنہ یہ خیال کرنا پڑے گا کہ مکان میں ساکت رہنا گویا وجود کی صفت سے مُعَّرا رہنا ہے۔ لیکن اس کے ناقدین کا خیال ہے کہ یہ استدلال صرف اس مفروضہ کی حد تک صحیح ہے کہ مکان میں ساکت رہنا اور وجود دونوں ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ ابن مبارک کہتا ہے کہ خارج میں ساکت رہنے کا تصور وجود کے تصور سے بھی وسیع تر ہے۔ کل موجودات خارجی ہیں، لیکن جو کچھ خارجی ہے وہ لازمی طور پر موجود نہیں کہی جاسکتی۔
اشاعرہ کو حشرِ اجساد (یعنی معدوم کے موجود کی حیثیت سے دوبارہ ظہور پذیر ہونے کا امکان کے عقیدہ سے دلچسپی تھی، اس کے تحت وہ ایک ایسے قضیہ کی حمایت کرنے لگے جو بداہتہً مہمل تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ “عدم یا لا شے بھی کوئی شے ہے”۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ چونکہ ہم لا شے پر حکم لگاتے ہیں اس لیے وہ “معلوم” ہے، اور اس کے معلوم ہونے کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ “لاشے” کلیتہً معدوم نہیں۔ جو “قابل علم” ہے وہ اثبات ہی کی ایک صورت ہے، اور عدم بھی قابل علم ہونے کے لحاظ سے اثبات کی ایک صورت10 ہوگی۔ الکاتبیی مقدمہ کبریٰ کی صداقت سے انکار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ناممکن اشیا معلوم و معروف تو ہوسکتی ہیں لیکن وہ خارج میں موجود نہیں ہوتین۔ الرازی اس استدلال پر تنقید کرتے ہوئے الکاتبیی پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اس واقعہ سے لاعلم ہیں کہ “جوہر” کا وجود ذہن میں ہوتا ہے، پھر بھی اس کا علم اس طرح ہوتا ہے، گویا وہ خارج میں موجود ہے۔ الکاتبیی خیال کرتا ہے کہ کسی شے کے علم سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کا وجود مستقل اور خارجی حقیقت رکھتا ہے۔ اس کے سوا یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اشاعرہ ایک طرف تو ایجابی اور موجود میں امتیاز کرتے ہیں اور دوسری طرف معدوم و سلبی میں۔ وہ کہتے ہین کہ وجود ایجابی ہے لیکن اس قضیہ کا عکس صحیح نہیں۔ موجود اور معدوم کے مابین یقینا ایک علاقہ ضرور ہے لیکن ایجابی اور سلبی میں قطعاً کوئی نسبت نہیں۔ الکاتبیی کی طرح ہم یہ نہیں کہتے کہ “ناممکن” معدوم ہے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ناممکن محض سلبی ہے۔ جواہر جو موجود ہیں وہ ایجابی ہیں۔ لیکن ایسی صفت جس کا وجود جوہر سے علیحدہ نہیں سمجھا جاسکتا نہ تو موجود ہے نہ معدوم بلکہ ان دونوں کے بین بین ہے۔ اشاعرہ کا نقطۂ نظر اجمالی طور پر حسب ذیل ہے:
کوئی شے یا تو اپنے وجود کا ثبوت رکھتی ہے، یا نہیں رکھتی۔
اگر نہیں رکھتی ہے، تو اس کو سلبی کہتے ہیں۔ اگر اُس کے وجود کا ثبوت ہے، تو یہ جوہر ہوگی یا عرض۔ اگر یہ جوہر ہے اور اس میں وجود یا عدم کی صفت ہے۔ (یعنی ادراک میں آسکتی ہے یا نہیں آسکتی، تو اس کے مطابق وہ موجود یا معدوم ہوگی۔ اگر وہ عرض ہے تو پھر وہ موجود ہے نہ معدوم۔11

حواشی

1محمد ابن مبارک کی شرح حکمت العین، ص۵ (الف)
2حسینی کی شرح حکمت العین۔
3ایضاً، ورق ۱۴ (ب)
4ابن مبارک کی شرح۔ ورق۸ (ب)
5ابن مبارک کی شرح۔ ورق ۲۰ الف۔
6ابن مبارک، ورق ۱۱(الف)
7
8ابن مبارک، ورق ۱۴ (الف)
9ابن مبارک کی شرح۔ ورق ۱۴(ب)
10ابن مبارک کی شرح۔ ورق ۱۵(الف)
11ابن مبارک کی شرح۔ ورق ۱۵ (ب)

<<پچھلا  اگلا>>

باب چہارم - تصوریت اور...

باب چہارم
تصوریت اور عقلیت کے مابین تنازع


دیگر زبانیں
English
اردو

logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان