جنگ
ير موک
کاايک واقعہ
صف
بستہ تھے عرب کے جوانان تيغ بند
تھي
منتظر حنا کي عروس زمين شام
اک
نوجوان صورت سيماب مضطرب
آ
کر ہوا امير عساکر سے ہم کلام
اے
بوعبيدہ رخصت پيکار دے مجھے
لبريز
ہو گيا مرے صبر و سکوں کو جام
بے
تاب ہو رہا ہوں فراق رسول ميں
اک
دم کي زندگي بھي محبت ميں ہے حرام
جاتا
ہوں ميں حضور رسالت پناہ ميں
لے
جائوں گا خوشي سے اگر ہو کوئي پيام
يہ
ذوق و شوق ديکھ کے پرنم ہوئي وہ آنکھ
جس
کي نگاہ تھي صفت تيغ بے نيام
بولا
امير فوج کہ ''وہ نوجواں ہے تو
پيروں
پہ تيرے عشق کا واجب ہے احترام
پوري
کرے خدائے محمد تري مراد
کتنا
بلند تيري محبت کا ہے مقام!
پہنچے
جو بارگاہ رسول اميں ميں تو
کرنا
يہ عرض ميري طرف سے پس از سلام
ہم
پہ کرم کيا ہے خدائے غيور نے
پورے
ہوئے جو وعدے کيے تھے حضور نے''
|