والدہ مرحومہ کي ياد ميں


ذرہ ذرہ دہر کا زنداني تقدير ہے
پردئہ مجبوري و بے چارگي تدبير ہے
آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہيں
انجم سيماب پا رفتار پر مجبور ہيں
ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار ميں
سبزہ و گل بھي ہيں مجبور نمو گلزار ميں
نغمہ بلبل ہو يا آواز خاموش ضمير
ہے اسي زنجير عالم گير ميں ہر شے اسير
آنکھ پر ہوتا ہے جب يہ سر مجبوري عياں
خشک ہو جاتا ہے دل ميں اشک کا سيل رواں
قلب انساني ميں رقص عيش و غم رہتا نہيں
نغمہ رہ جاتا ہے ، لطف زيروبم رہتا نہيں
علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے
يعني اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے
گرچہ ميرے باغ ميں شبنم کي شادابي نہيں
آنکھ ميري مايہ دار اشک عنابي نہيں
جانتا ہوں آہ ، ميں آلام انساني کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالي مري فطرت کا ساز
ميرے لب پر قصہ نيرنگي دوراں نہيں
دل مرا حيراں نہيں، خنداں نہيں، گرياں نہيں
پر تري تصوير قاصد گريہء پيہم کي ہے
آہ! يہ ترديد ميري حکمت محکم کي ہے
گريہ سرشار سے بنياد جاں پائندہ ہے
درد کے عرفاں سے عقل سنگدل شرمندہ ہے
موج دود آہ سے آئينہ ہے روشن مرا
گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا
حيرتي ہوں ميں تري تصوير کے اعجاز کا
رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کي پرواز کا
رفتہ و حاضر کو گويا پا بپا اس نے کيا
عہد طفلي سے مجھے پھر آشنا اس نے کيا
جب ترے دامن ميں پلتي تھي وہ جان ناتواں
بات سے اچھي طرح محرم نہ تھي جس کي زباں
اور اب چرچے ہيں جس کي شوخي گفتار کے
بے بہا موتي ہيں جس کي چشم گوہربار کے
علم کي سنجيدہ گفتاري، بڑھاپے کا شعور
دنيوي اعزاز کي شوکت، جواني کا غرور
زندگي کي اوج گاہوں سے اتر آتے ہيں ہم
صحبت مادر ميں طفل سادہ رہ جاتے ہيں ہم
بے تکلف خندہ زن ہيں، فکر سے آزاد ہيں
پھر اسي کھوئے ہوئے فردوس ميں آباد ہيں
کس کو اب ہوگا وطن ميں آہ! ميرا انتظار
کون ميرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
خاک مرقد پر تري لے کر يہ فرياد آئوں گا
اب دعائے نيم شب ميں کس کو ياد ميں آئوں گا!
تربيت سے تيري ميں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمايہ عزت ہوا
دفتر ہستي ميں تھي زريں ورق تيري حيات
تھي سراپا ديں و دنيا کا سبق تيري حيات
عمر بھر تيري محبت ميري خدمت گر رہي
ميں تري خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسي
وہ جواں، قامت ميں ہے جو صورت سرو بلند
تيري خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند
کاروبار زندگاني ميں وہ ہم پہلو مرا
وہ محبت ميں تري تصوير، وہ بازو مرا
تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ
صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ
تخم جس کا تو ہماري کشت جاں ميں بو گئي
شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہوگئي
آہ! يہ دنيا ، يہ ماتم خانہ برنا و پير
آدمي ہے کس طلسم دوش و فردا ميں اسير!
کتني مشکل زندگي ہے، کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستي ميں مانند نسيم ارزاں ہے موت
زلزلے ہيں، بجلياں ہيں، قحط ہيں، آلام ہيں
کيسي کيسي دختران مادر ايام ہيں!
کلبہ افلاس ميں، دولت کے کاشانے ميں موت
دشت و در ميں، شہر ميں، گلشن ميں، ويرانے ميں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش ميں
ڈوب جاتے ہيں سفينے موج کي آغوش ميں
نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
زندگاني کيا ہے ، اک طوق گلو افشار ہے!
قافلے ميں غير فرياد درا کچھ بھي نہيں
اک متاع ديدئہ تر کے سوا کچھ بھي نہيں
ختم ہو جائے گا ليکن امتحاں کا دور بھي
ہيں پس نہ پردئہ گردوں ابھي اور بھي
سينہ چاک اس گلستاں ميں لالہ و گل ہيں تو کيا
نالہ و فرياد پر مجبور بلبل ہيں تو کيا
جھاڑياں، جن کے قفس ميں قيد ہے آہ خزاں
سبز کر دے گي انھيں باد بہار جاوداں
خفتہ خاک پے سپر ميں ہے شرار اپنا تو کيا
عارضي محمل ہے يہ مشت غبار اپنا تو کيا
زندگي کي آگ کا انجام خاکستر نہيں
ٹوٹنا جس کا مقدر ہو يہ وہ گوہر نہيں
زندگي محبوب ايسي ديدئہ قدرت ميں ہے
ذوق حفظ زندگي ہر چيز کي فطرت ميں ہے
موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حيات
عام يوں اس کو نہ کر ديتا نظام کائنات
ہے اگر ارزاں تو يہ سمجھو اجل کچھ بھي نہيں
جس طرح سونے سے جينے ميں خلل کچھ بھي نہيں
آہ غافل! موت کا راز نہاں کچھ اور ہے
نقش کي ناپائداري سے عياں کچھ اور ہے
جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب
موج مضطر توڑ کر تعمير کرتي ہے حباب
موج کے دامن ميں پھر اس کو چھپا ديتي ہے يہ
کتني بيدردي سے نقش اپنا مٹا ديتي ہے يہ
پھر نہ کر سکتي حباب اپنا اگر پيدا ہوا
توڑنے ميں اس کے يوں ہوتي نہ بے پروا ہوا
اس روش کا کيا اثر ہے ہےئت تعمير پر
يہ تو حجت ہے ہوا کي قوت تعمير پر
فطرت ہستي شہيد آرزو رہتي نہ ہو
خوب تر پيکر کي اس کو جستجو رہتي نہ ہو
آہ سيماب پريشاں ، انجم گردوں فروز
شوخ يہ چنگارياں ، ممنون شب ہے جن کا سوز
عقل جس سے سر بہ زانو ہے وہ مدت ان کي ہے
سرگزشت نوع انساں ايک ساعت ان کي ہے
پھر يہ انساں، آں سوئے افلاک ہے جس کي نظر
قدسيوں سے بھي مقاصد ميں ہے جو پاکيزہ تر
جو مثال شمع روشن محفل قدرت ميں ہے
آسماں اک نقطہ جس کي وسعت فطرت ميں ہے
جس کي ناداني صداقت کے ليے بيتاب ہے
جس کا ناخن ساز ہستي کے ليے مضراب ہے
شعلہ يہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھي کيا
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھي کيا
تخم گل کي آنکھ زير خاک بھي بے خواب ہے
کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے
زندگي کا شعلہ اس دانے ميں جو مستور ہے
خود نمائي ، خودفزائي کے ليے مجبور ہے
سردي مرقد سے بھي افسردہ ہو سکتا نہيں
خاک ميں دب کر بھي اپنا سوز کھو سکتا نہيں
پھول بن کر اپني تربت سے نکل آتا ہے يہ
موت سے گويا قبائے زندگي پاتا ہے يہ
ہے لحد اس قوت آشفتہ کي شيرازہ بند
ڈالتي ہے گردن گردوں ميں جو اپني کمند
موت، تجديد مذاق زندگي کا نام ہے
خواب کے پردے ميں بيداري کا اک پيغام ہے
خوگر پرواز کو پرواز ميں ڈر کچھ نہيں
موت اس گلشن ميں جز سنجيدن پر کچھ نہيں
کہتے ہيں اہل جہاں درد اجل ہے لا دوا
زخم فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا
دل مگر ، غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے
حلقہ زنجير صبح و شام سے آزاد ہے
وقت کے افسوں سے تھمتا نالئہ ماتم نہيں
وقت زخم تيغ فرقت کا کوئي مرہم نہيں
سر پہ آجاتي ہے جب کوئي مصيبت ناگہاں
اشک پيہم ديدئہ انساں سے ہوتے ہيں رواں
ربط ہو جاتا ہے دل کو نالہ و فرياد سے
خون دل بہتا ہے آنکھوں کي سرشک آباد سے
آدمي تاب شکيبائي سے گو محروم ہے
اس کي فطرت ميں يہ اک احساس نامعلوم ہے
ق
جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہيں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے ،فنا ہوتا نہيں
رخت ہستي خاک، غم کي شعلہ افشاني سے ہے
سرد يہ آگ اس لطيف احساس کے پاني سے ہے
آہ، يہ ضبط فغاں غفلت کي خاموشي نہيں
آگہي ہے يہ دل آسائي، فراموشي نہيں
پردئہ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتي ہے صبح
داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتي ہے صبح
لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتي ہے يہ
بے زباں طائر کو سرمست نوا کرتي ہے يہ
سينہ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے
سينکڑوں نغموں سے باد صج دم آباد ہے
خفتگان لالہ زار و کوہسار و رودباد
ہوتے ہيں آخر عروس زندگي سے ہمکنار
يہ اگر آئين ہستي ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقد انساں کي شب کا کيوں نہ ہو انجام صبح
دام سيمين تخيل ہے مرا آفاق گير
کر ليا ہے جس سے تيري ياد کو ميں نے اسير
ياد سے تيري دل درد آشنا معمور ہے
جيسے کعبے ميں دعاؤں سے فضا معمور ہے
وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حيات
جلوہ گاہيں اس کي ہيں لاکھوں جہاں بے ثبات
مختلف ہر منزل ہستي کي رسم و راہ ہے
آخرت بھي زندگي کي ايک جولاں گاہ ہے
ہے وہاں بے حاصلي کشت اجل کے واسطے
ساز گار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے
نور فطرت ظلمت پيکر کا زنداني نہيں
تنگ ايسا حلقہء افکار انساني نہيں
زندگاني تھي تري مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھي تيرا سفر
مثل ايوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور يہ خاکي شبستاں ہو ترا
آسماں تيري لحد پر شبنم افشاني کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کي نگہباني کرے