نو يد صبح
1912
ء


آتي ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر
منزل ہستي سے کر جاتي ہے خاموشي سفر
محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت
ديتي ہے ہر چيز اپني زندگاني کا ثبوت
چہچاتے ہيں پرندے پا کے پيغام حيات
باندھتے ہيں پھول بھي گلشن ميں احرام حيات
مسلم خوابيدہ اٹھ ، ہنگامہ آرا تو بھي ہو
وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھي ہو
وسعت عالم ميں رہ پيما ہو مثل آفتاب
دامن گردوں سے ناپيدا ہوں يہ داغ سحاب
کھينچ کر خنجر کرن کا ، پھر ہو سرگرم ستيز
پھر سکھا تاريکي باطل کو آداب گريز
تو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عرياني تجھے
اور عرياں ہو کے لازم ہے خود افشاني تجھے
ہاں ، نماياں ہو کے برق ديدئہ خفاش ہو
اے دل کون ومکاں کے راز مضمر! فاش ہو