شا عر
جوئے
سرود آفريں آتي ہے کوہسار سے
پي
کے شراب لالہ گوں مے کدئہ بہار سے
مست
مے خرام کا سن تو ذرا پيام تو
زندہ
وہي ہے کام کچھ جس کو نہيں قرار سے
پھرتي
ہے واديوں ميں کيا دخترخوش خرام ابر
کرتي
ہے عشق بازياں سبزئہ مرغزار سے
جام
شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتي ہے
پست
و بلند کرکے طے کھيتوں کو جا پلاتي ہے
شاعر
دل نواز بھي بات اگر کہے کھري
ہوتي
ہے اس کے فيض سے مزرع زندگي ہري
شان
خليل ہوتي ہے اس کے کلام سے عياں
کرتي
ہے اس کي قوم جب اپنا شعار آزري
اہل
زميں کو نسخہء زندگي دوام ہے
خون
جگر سے تربيت پاتي ہے جو سخنوري
گلشن
دہر ميں اگر جوئے مے سخن نہ ہو
پھول
نہ ہو، کلي نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو
|