شکوہ
کيوں
زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر
فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے
بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم
نوا ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات
آموز مري تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ
اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
ہے
بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ
درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
ساز
خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ
آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم
اے
خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے
خوگر
حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے
تھي
تو موجود ازل سے ہي تري ذات قديم
پھول
تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھي شميم
شرط
انصاف ہے اے صاحب الطاف عميم
بوئے
گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم
ہم
کو جمعيت خاطر يہ پريشاني تھي
ورنہ
امت ترے محبوب کي ديواني تھي؟
ہم
سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
کہيں
مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر
خوگر
پيکر محسوس تھي انساں کي نظر
مانتا
پھر کوئي ان ديکھے خدا کو کيونکر
تجھ
کو معلوم ہے ، ليتا تھا کوئي نام ترا؟
قوت
بازوئے مسلم نے کيا کام ترا
بس
رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي
اہل
چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي
اسي
معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي
اسي
دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي
پر
ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے
بات
جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے
تھے
ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
خشکيوں
ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں
ديں
اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں
کبھي
افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں
شان
آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہاں داروں کي
کلمہ
پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي
ہم
جو جيتے تھے تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
اور
مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے
تھي
نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے
سربکف
پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟
قوم
اپني جو زر و مال جہاں پر مرتي
بت
فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي!
ٹل
نہ سکتے تھے اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
پاؤں
شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ
سے سرکش ہوا کوئي تو بگڑ جاتے تھے
تيغ
کيا چيز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش
توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
زير
خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے
تو
ہي کہہ دے کہ اکھاڑا در خيبر کس نے
شہر
قيصر کا جو تھا ، اس کو کيا سر کس نے
توڑے
مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے
کاٹ
کر رکھ ديے کفار کے لشکر کس نے
کس
نے ٹھنڈا کيا آتشکدہ ايراں کو؟
کس
نے پھر زندہ کيا تذکرہ يزداں کو؟
کون
سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي
اور
تيرے ليے زحمت کش پيکار ہوئي
کس
کي شمشير جہاں گير ، جہاں دار ہوئي
کس
کي تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئي
کس
کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ
کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے
آ
گيا عين لڑائي ميں اگر وقت نماز
قبلہ
رو ہو کے زميں بوس ہوئي قوم حجاز
ايک
ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
نہ
کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز
بندہ
و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
تيري
سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے
محفل
کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
مے
توحيد کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ
ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
اور
معلوم ہے تجھ کو ، کبھي ناکام پھرے!
دشت
تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے
بحر
ظلمات ميں دوڑا ديے گھوڑے ہم نے
صفحہ
دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
نوع
انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے
تيرے
کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
تيرے
قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے
پھر
بھي ہم سے يہ گلہ ہے کہ وفادار نہيں
ہم
وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں!
امتيں
اور بھي ہيں ، ان ميں گنہ گار بھي ہيں
عجز
والے بھي ہيں ، مست مےء پندار بھي ہيں
ان
ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں
سينکڑوں
ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں
رحمتيں
ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر
برق
گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر
بت
صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے
ہے
خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل
دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے
اپني
بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ
زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں
اپني
توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں
يہ
شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور
نہيں
محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور
قہر
تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
اور
بيچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور
اب
وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
بات
يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں
کيوں
مسلمانوں ميں ہے دولت دنيا ناياب
تيري
قدرت تو ہے وہ جس کي نہ حد ہے نہ حساب
تو
جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب
رہرو
دشت ہو سيلي زدہء موج سراب
طعن
اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے
کيا
ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟
بني
اغيار کي اب چاہنے والي دنيا
رہ
گئي اپنے ليے ايک خيالي دنيا
ہم
تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالي دنيا
پھر
نہ کہنا ہوئي توحيد سے خالي دنيا
ہم
تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
کہيں
ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے!
تيري
محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے
شب
کے آہيں بھي گئيں ، صبح کے نالے بھي گئے
دل
تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلا لے بھي گئے
آ
کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے
آئے
عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اب
انھيں ڈھونڈ چراغ رخ زيبا لے کر
درد
ليلي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي
نجد
کے دشت و جبل ميں رم آہو بھي وہي
عشق
کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي
امت
احمد مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي
پھر
يہ آزردگي غير سبب کيا معني
اپنے
شيداؤں پہ يہ چشم غضب کيا معني
تجھ
کو چھوڑا کہ رسول عربي کو چھوڑا؟
بت
گري پيشہ کيا ، بت شکني کو چھوڑا؟
عشق
کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟
رسم
سلمان و اويس قرني کو چھوڑا؟
آگ
تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں
زندگي
مثل بلال حبشي رکھتے ہيں
عشق
کي خير وہ پہلي سي ادا بھي نہ سہي
جادہ
پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي
مضطرب
دل صفت قبلہ نما بھي نہ سہي
اور
پابندي آئين وفا بھي نہ سہي
کبھي
ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے
بات
کہنے کي نہيں ، تو بھي تو ہرجائي ہے
!
سر
فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
اک
اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے
آتش
اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
پھونک
دي گرمي رخسار سے محفل تو نے
آج
کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں
ہم
وہي سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟
وادي
نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس
ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا
حوصلے
وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر
يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
اے
خوش آں روز کہ آئي و بصد ناز آئي
بے
حجابانہ سوئے محفل ما باز آئي
بادہ
کش غير ہيں گلشن ميں لب جو بيٹھے
سنتے
ہيں جام بکف نغمہ کو کو بيٹھے
دور
ہنگامہ گلزار سے يک سو بيٹھے
تيرے
ديوانے بھي ہيں منتظر 'ھو' بيٹھے
اپنے
پروانوں کو پھر ذوق خود افروزي دے
برق
ديرينہ کو فرمان جگر سوزي دے
قوم
آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے
اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
مضطرب
باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
تو
ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز
نغمے
بے تاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
طور
مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے
مشکليں
امت مرحوم کي آساں کر دے
مور
بے مايہ کو ہمدوش سليماں کر دے
جنس
ناياب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند
کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے
جوئے
خوں مي چکد از حسرت ديرينہء ما
مي
تپد نالہ بہ نشتر کدہ سينہ ما
بوئے
گل لے گئي بيرون چمن راز چمن
کيا
قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غماز چمن
!
عہد
گل ختم ہوا ٹوٹ گيا ساز چمن
اڑ
گئے ڈاليوں سے زمزمہ پرواز چمن
ايک
بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس
کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قمرياں
شاخ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں
پےتاں
پھول کي جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں
وہ
پراني روشيں باغ کي ويراں بھي ہوئيں
ڈالياں
پيرہن برگ سے عرياں بھي ہوئيں
قيد
موسم سے طبيعت رہي آزاد اس کي
کاش
گلشن ميں سمجھتا کوئي فرياد اس کي!
لطف
مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں
کچھ
مزا ہے تو يہي خون جگر پينے ميں
کتنے
بے تاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں
کس
قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں
اس
گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں
داغ
جو سينے ميں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہي نہيں
چاک
اس بلبل تنہا کي نوا سے دل ہوں
جاگنے
والے اسي بانگ درا سے دل ہوں
يعني
پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر
اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں
عجمي
خم ہے تو کيا ، مے تو حجازي ہے مري
نغمہ
ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مري!
|