انسان


قدرت کا عجيب يہ ستم ہے!
انسان کو راز جو بنايا
راز اس کي نگاہ سے چھپايا
بے تاب ہے ذوق آگہي کا
کھلتا نہيں بھيد زندگي کا
حيرت آغاز و انتہا ہے
آئينے کے گھر ميں اور کيا ہے
ہے گرم خرام موج دريا
دريا سوئے سجر جادہ پيما
بادل کو ہوا اڑا رہي ہے
شانوں پہ اٹھائے لا رہي ہے
تارے مست شراب تقدير
زندان فلک ميں پا بہ زنجير
خورشيد ، وہ عابد سحر خيز
لانے والا پيام بر خيز
مغرب کي پہاڑيوں ميں چھپ کر
پيتا ہے مے شفق کا ساغر
لذت گير وجود ہر شے
سر مست مے نمود ہر شے
کوئي نہيں غم گسار انساں
کيا تلخ ہے روزگار انساں!