طفل
شير
خوار
ميں
نے چاقو تجھ سے چھينا ہے تو چلاتا ہے تو
مہرباں
ہوں ميں ، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تو
پھر
پڑا روئے گا اے نووارد اقليم غم
چبھ
نہ جائے ديکھنا! ، باريک ہے نوک قلم
آہ!
کيوں دکھ دينے والي شے سے تجھ کو پيار ہے
کھيل
اس کاغذ کے ٹکڑے سے ، يہ بے آزار ہے
گيند
ہے تيري کہاں ، چيني کي بلي ہے کد ھر؟
وہ
ذرا سا جانور ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر
تيرا
آئينہ تھا آزاد غبار آرزو
آنکھ
کھلتے ہي چمک اٹھا شرار آرزو
ہاتھ
کي جنبش ميں ، طرز ديد ميں پوشيدہ ہے
تيري
صورت آرزو بھي تيري نوزائيدہ ہے
زندگاني
ہے تري آزاد قيد امتياز
تيري
آنکھوں پر ہويدا ہے مگر قدرت کا راز
جب
کسي شے پر بگڑ کر مجھ سے ، چلاتا ہے تو
کيا
تماشا ہے ردي کاغذ سے من جاتا ہے تو
آہ!
اس عادت ميں ہم آہنگ ہوں ميں بھي ترا
تو
تلون آشنا ، ميں بھي تلون آشنا
عارضي
لذت کا شيدائي ہوں ، چلاتا ہوں ميں
جلد
آ جاتا ہے غصہ ، جلد من جاتا ہوں ميں
ميري
آنکھوں کو لبھا ليتا ہے حسن ظاہري
کم
نہيں کچھ تيري ناداني سے ناداني مري
تيري
صورت گاہ گرياں گاہ خنداں ميں بھي ہوں
ديکھنے
کو نوجواں ہوں ، طفل ناداں ميں بھي ہوں
|