پر
ندے کي
فر ياد
بچو ں کے
ليے
آتا
ہے ياد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ
باغ کي بہاريں وہ سب کا چہچہانا
آزادياں
کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کي
اپني
خوشي سے آنا اپني خوشي سے جانا
لگتي
ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے ياد جس دم
شبنم
کے آنسوئوں پر کليوں کا مسکرانا
وہ
پياري پياري صورت ، وہ کامني سي مورت
آباد
جس کے دم سے تھا ميرا آشيانا
آتي
نہيں صدائيں اس کي مرے قفس ميں
ہوتي
مري رہائي اے کاش ميرے بس ميں!
کيا
بد نصيب ہوں ميں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھي
تو ہيں وطن ميں ، ميں قيد ميں پڑا ہوں
آئي
بہار کلياں پھولوں کي ہنس رہي ہيں
ميں
اس اندھيرے گھر ميں قسمت کو رو رہا ہوں
اس
قيد کا الہي! دکھڑا کسے سنائوں
ڈر
ہے يہيں قفسں ميں ميں غم سے مر نہ جائوں
جب
سے چمن چھٹا ہے ، يہ حال ہو گيا ہے
دل
غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا
اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے
ہوئے دلوں کي فرياد يہ صدا ہے
آزاد
مجھ کو کر دے ، او قيد کرنے والے!
ميں
بے زباں ہوں قيدي ، تو چھوڑ کر دعا لے
|