عہد
طفلي
تھے
ديار نو زمين و آسماں ميرے ليے
وسعت
آغوش مادر اک جہاں ميرے ليے
تھي
ہر اک جنبش نشان لطف جاں ميرے ليے
حرف
بے مطلب تھي خود ميري زباں ميرے ليے
درد
، طفلي ميں اگر کوئي رلاتا تھا مجھے
شورش
زنجير در ميں لطف آتا تھا مجھے
تکتے
رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر
وہ
پھٹے بادل ميں بے آواز پا اس کا سفر
پوچھنا
رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کي خبر
اور
وہ حيرت دروغ مصلحت آميز پر
آنکھ
وقف ديد تھي ، لب مائل گفتار تھا
دل
نہ تھا ميرا ، سراپا ذوق استفسار تھا
|