يورپ سے ايک خط


ہم خوگر محسوس ہيں ساحل کے خريدار
اک بحر پر آشوب و پر اسرار ہے رومي
تو بھي ہے اسي قافلہء شوق ميں اقبال
جس قافلہء شوق کا سالار ہے رومي
اس عصر کو بھي اس نے ديا ہے کوئي پيغام؟
کہتے ہيں چراغ رہ احرار ہے رومي
جواب
کہ نبايد خورد و جو ہمچوں خراں
آہوانہ در ختن چر ارغواں
ہر کہ کاہ و جو خورد قرباں شود
ہر کہ نور حق خورد قرآں شود