فلسفہ ومذہب
يہ
آفتاب کيا ، يہ سپہر بريں ہے کيا!
سمجھ
نہيں تسلسل شام و سحر کو ميں
اپنے
وطن ميں ہوں کہ غريب الديار ہوں
ڈرت
ہوں ديکھ ديکھ کے اس دشت و در کو ميں
کھلت
نہيں مرے سفر زندگي کا راز
لاؤں
کہاں سے بندئہ صاحب نظر کو ميں
حيراں
ہے بوعلي کہ ميں آيا کہاں سے ہوں
رومي
يہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو ميں
''جات
ہوں تھوڑي دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانت
نہيں ہوں ابھي راہبر کو ميں''
|