روح ارضي آدم کا استقبال کرتي ہے


کھول آنکھ ، زميں ديکھ ، فلک ديکھ ، فضا ديکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا ديکھ
اس جلوئہ بے پردہ کو پردوں ميں چھپا ديکھ
ايام جدائي کے ستم ديکھ ، جفا ديکھ
بے تاب نہ ہو معرکہء بيم و رجا ديکھ!
ہيں تيرے تصرف ميں يہ بادل ، يہ گھٹائيں
يہ گنبد افلاک ، يہ خاموش فضائيں
يہ کوہ يہ صحرا ، يہ سمندر يہ ہوائيں
تھيں پيش نظر کل تو فرشتوں کي ادائيں
آئينہء ايام ميں آج اپني ادا ديکھ!
سمجھے گا زمانہ تري آنکھوں کے اشارے
ديکھيں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپيد ترے بحر تخيل کے کنارے
پہنچيں گے فلک تک تري آہوں کے شرارے
تعمير خودي کر ، اثر آہ رسا ديکھ!
خورشيد جہاں تاب کي ضو تيرے شرر ميں
آباد ہے اک تازہ جہاں تيرے ہنر ميں
جچتے نہيں بخشے ہوئے فردوس نظر ميں
جنت تري پنہاں ہے ترے خون جگر ميں
اے پيکر گل کوشش پيہم کي جزا ديکھ!
نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خريدار ازل سے
تو پير صنم خانہء اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ريز و کم آزار ازل سے
ہے راکب تقدير جہاں تيري رضا ، ديکھ!