جاويد
کے
نام
خودي
کے ساز ميں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودي
کے سوز سے روشن ہيں امتوں کے چراغ
يہ
ايک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود
ہزار
گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ!
ہوئي
نہ زاغ ميں پيدا بلند پروازي
خراب
کر گئي شاہيں بچے کو صحبت زاغ
حيا
نہيں ہے زمانے کي آنکھ ميں باقي
خدا
کرے کہ جواني تري رہے بے داغ
ٹھہر
سکا نہ کسي خانقاہ ميں اقبال
کہ
ہے ظريف و خوش انديشہ و شگفتہ دماغ
|