خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميري ابتدا کيا ہے


خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميري ابتدا کيا ہے
کہ ميں اس فکر ميں رہتا ہوں ، ميري انتہا کيا ہے
خودي کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدير سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تيري رضا کيا ہے
مقام گفتگو کيا ہے اگر ميں کيميا گرہوں
يہي سوز نفس ہے ، اور ميري کيميا کيا ہے!
نظر آئيں مجھے تقدير کي گہرائياں اس ميں
نہ پوچھ اے ہم نشيں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کيا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگي اس زمانے ميں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبريا کيا ہے
نواے صبح گاہي نے جگر خوں کر ديا ميرا
خدايا جس خطا کي يہ سزا ہے ، وہ خطا کيا ہے!
جرمني کا مشہور محذوب فلسفي نطشہ جو اپنے قلبي واردات کا صحيح اندازہ نہ کرسکا
اوراس ليے اس کے فلسفيانہ افکار نے اسے غلط راستے پر ڈال ديا