اقبال اکادمی پاکستان کے زیر اہتمام "عہد حاضر کے تقاضے اور فکر اقبال" کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے مقررین نے کہا کہ اقبال کی فکر سے جڑے بغیر نہ قوم آگے بڑھ سکتی ہے نہ ملک افغانستان سے بہتر روابط کے لیے علامہ کا پیغام مؤثر ذریعہ ثابت ہوسکتاہے۔
سیمینار کی صدارت منیب اقبال نے کی جبکہ ڈائریکٹر اقبال اکادمی محمد بخش سانگی نے حرف استقبال پیش کیا اور میزبانی کے فرائض ہارون اکرام گل اور لائبہ سہیل نے انجام دیئے۔ مقررین میں سجاد میر، ارشاد عارف، سلمان غنی ، ڈاکٹر سلیم مظہر، ڈاکٹر راغب نعیمی اور ہما پرائس شامل تھیں۔
منیب اقبال نے کہا ہےکہ علامہ اقبال کی تعلمیات تمام نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں انہوں نے کہا کہ نوجوان علامہ اقبال کے افکار کو سامن رکھیں اور آگے بڑھ کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ نائب صدر اقبال اکادمی نے کہا کہ علامہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے رہنما ہیں وہ اس قوم میں ہمت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اگر آج ہم اقوام عالم میں سر اٹھاکر جینا چاہتے ہیں تو افکار اقبال پر عمل کرنا ہوگا۔
سجاد میر نے کہا کہ علامہ صاحب سے کسی نے کہا قومیں دین سے نہیں جغرافیہ سے بنتی ہیں۔ جس پر علامہ نے جواب دیا کہ وہ یورپ کا تصور ہے۔ ہمارے ہاں قومیں بنتی ہی جب ہیں جب روح اور مذہب داخل ہو۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اور قائد اعظم کے بغیر وطن کا تصور ناگزیر ہے۔
ارشاد عارف نے تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم الگ ریاست اور ایٹمی قوت ہیں، چار موسم ہمارے پاس ہیں لیکن ہم غلامی کے اندھروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہم پر وہ لیڈر شپ مسلط ہے جو اقبال کا نام نہیں سننا چاہتے۔ 9 نومبر کی تعطیل اسی لیے نہیں کی گئی۔ یہ بزدلوں کے لیے استعارہ ہے۔ اقبال کا نام سامنے آنے پر شرمندہ نہیں ہوتے۔ وزیر داخلہ کا بیان ہے کہ علامہ کام اور بس کام کی بات کرتے ہیں جب کہ اس کے برعکس انہیں اسلام آباد میں غلام ابن غلا م درکار ہیں جو ان کے کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ اقبال اس قوم میں ہمت پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اقبال سے جڑے بغیر نہ قوم نہ وطن آگے جاسکتا ہے۔