اقبال اکيڈمي سکنڈے نيويا تقريبات اقبال نومبر 2005ء
اقبال اکيڈمي سکنڈے نيويا کے زير اہتمام نومبر 2005ء ميں کوپن ہيگن کے مرکزي مقامات پر دو الگ الگ تقريبات اور مذاکروں کا اہتمام کيا گيا - پہلي تقريب ڈنمارک اور قريبي علاقوں يعني سويڈن اور ناروے کے پاکستانيوں کے ليے يوم اقبال کي تقريب تھي- 25 - دسمبر کي سہ پہر کوپن ہيگن، کميونٹي سنٹر کے بڑے ہال ميں تقريب منعقد ہوئي - سفير پاکستان جاويد چوھدري مہمان خصوصي تھے،اقبال اکيڈمي سکنڈے نيويا کے صدر جناب غلام صابر، اکيڈمي کے سرپرست ڈاکٹر اقبال خان، لندن سے نے والے مہمان اشرف چوہدري اور ناظم اکادمي محمد سہيل عمر تقريب ميں شامل تھے- نظامت کے فرائض عابد علي عابد صاحب نے انجام دئيے - تلاوت قر ن مجيد سے غاز کلام کيا گيا - اسلم راوي صاحب نے علامہ اقبال کے حيات و افکار پر مختصر اظہار خيال کيا اور ڈنمارک ميں باد پاکستانيوں کے ليے ان کي فکر کي اہميت پر زور ديتے ہوئے يہ نکتہ بھي اجاگر کيا کہ ڈنمارک کے سب سے بڑے فلسفي سورن کر کے گور کي فکر ميں اور علامہ کے کليدي افکار ميں غير معمولي مماثلت پائي جاتي ہے- محترمہ مسعودہ صدف صاحبہ نے اقبال کے تصور عشق پرمقالہ پيش کيا اور کلام اقبال اردو ، فارسي سے مفصل حوالے ديتے ہوئے اس نکتے کي وضاحت کي کہ اقبال کے ہاں تصور عشق کيونکر تہ در تہ معني کا حامل نظر تا ہے جو عشق مجازي، حقيقي اور کائناتي کي جملہ سطحوں کو محيط ہے- مقالے کو اس کي سلاست اور بيان کي خوبي کي وجہ سے بہت سراہا گيا- اس کے بعد اقبال اکيڈمي سکنڈے نيويا کے صدر جناب غلام صابر صاحب نے اکيڈمي کا تعارف پيش کيا اور اس کي سرگرميوں پر مختصر اً روشني ڈالي، نيز ئندہ کے زير غور منصوبوں پر بھي گفتگو کي- کليدي خطاب کے ليے ناظم اکادمي کو دعوت دي گئي ان کي گفتگو کے مرکزي نکات يہ تھے کہ اسلامي تہذيب کے سارے منطقوں ميں اور تمام اسلامي زبانوں ميں شاعري کا منصب اور فريضہ ايک درجہ وار نظام مراتب سے متعلق رہا ہے جس کے بلند ترين درجے پر شعر حکمت يا حکيمانہ شاعري فائز ہے - سر علامہ اقبال کا اردو اور فارسي کلام اسي حکيمانہ شاعري کا نمائندہ ہے اور اسلام کے تصور کائنات ، تصور خدا اور تصور انسان کا ايک حسين بيانيہ ہے- انہوں نے اس نکتے کي جانب بھي توجہ دلائي کہ دنيا کي ساري بڑي تہذيبوں ميں، مغرب جديد کے علاوہ، شاعري کا يہي تصور پايا جاتا ہے - يہ بات بھي کہي گئي کہ دنيا کي ساري بڑي شاعري کي طرح کلام اقبال بھي اپنے پڑھنے والے کو ان بنيادي انساني سوالوں کے رو بہ رو کرتا ہے جو پاکستاني اور غير پاکستاني يا مسلم اور غير مسلم کے سوال نہيں ہيں بلکہ انسان کے سوال ہيں- تيسري بات جو زير غور لائي گي يہ تھي علامہ اقبال بيسويں صدي ميں مسلمانوں کي طرف سے عہد جديد کے فکري چيلنج کے جواب ميں اٹھنے والي سب سے توانا اور بامعني واز ہے اور اس چيلنج کا مقابلہ وہ اپني تين بنيادي حيثيات ميں کرتے ہيں، اولاً اپني نثري اور فلسفيانہ تحريروں کے حوالے سے ايک فلسفي کے طور پر، دوم اپنے اردو و فارسي کے شعري سرمائے کے وسيلے سے اسلام کے ترجمان کے طور پر اور سوم ايک سماجي مصلح اور رہنما کا کردار انجام ديتے ہوئے- يہي تين حيثيات اقبال کو ہمارے ليے پہلے بھي اہم بناتي تھيں اور ئندہ بھي اسي سے ان کي معنويت برقرار رہے گي -اشرف چوہدري صاحب نے اپنے لطيف طنزيہ انداز ميں اقبال کے مختلف اشعار پر تبصرہ کيا اور اپنے تجربات زيست کو علامہ کے افکار سے واضح کرنے کي کوشش کي - سفير پاکستان جناب جاويد چوہدري کا مختصر خطاب کا مرکزي خيال يہ تھا کہ فکر اقبال ج کے مسلمان کے ليے کس طرح رہنما بنتي ہے بالخصوص ان لوگوں کے ليے جو بيرون ملک باد ہيں- اس کے بعد عابد علي عابد صاحب نے اقبال اکيڈمي سکنڈے نيويا کي طرف سے تيار کردہ کچھ سلائيڈ کي نمائش کي اور دعوت طعام پر محفل اختتام پزير ہوئي -کھانے کے بعد حلقہ مطالعہ اقبال - ڈنمارک اور ناظم اکادمي کے مابين ايک نشست کا اہتمام کيا گيا تھا جس ميں حلقے سے متعلق نوجوانوں نے ناظم اکادمي سے فکر اقبال ، اسلام ، عہد جديد اور اس کے مسائل اور ديگر متفرقات پر سوال کيے- تبادلہ خيال کي روشني ميں حلقہ? مطالعہ? اقبال - ڈنمارک کي علمي ضروريات کا تعين کيا گيا، ئندہ مطالعہ اور تبادلہ? افکار کا طريقہ کار طے کيا گيا اورحلقے کو مزيد فعال بنانے کے چند اقدامات طے کيے گئے -جلسے اور نشست دونوں کي ايک خوش ئند بات يہ بھي تھي کہ تقريباً سبھي نوجوان ڈنمارک ميں رہنے اور پڑھنے کے باوجود شستہ علمي زبان بولنے اور سنجيدہ موضوعات پر اردو ہي ميں تبادلہ خيال کرنے کي قدرت رکھتے تھے جو ايک نہايت قابل تعريف مگر کمياب چيز ہے - يہي نہيں بلکہ وہ سوالات جو نوجوانوں کي طرف سے اٹھائے جاتے رہے تھے ان سے بھي ان کي پختگي فکر اور ذہني سطح کا بخوبي اندازہ کيا جا سکتا تھا - اقبال اکيڈمي سکنڈے نيويا کے تحت تيار کي جانے والي ويب سائٹ کا افتتاح بھي اس تقريب کي مناسبت سے اس روز کيا گيا- ويب سائٹ اقبال سٹڈي سرکل کے نوجوان کارکن ہادي خان کي محنت کا نتيجہ ہے اور اس کا پتہ ہے www.Iqan.com
مذاکرے
:-26 تاريخ کو سہ پہر ميں ڈنمارک کے اہل علم اور دانشوروں کے ساتھ اقبال اکيڈمي سکنڈے نيويا کي طرف سے ايک مذاکرے کا اہتمام کيا گيا- کوپن ہيگن کے معروف صحافي اور ميڈيا کي سرگرم شخصيت ڈاکٹر نيلسن اور کرکے گورسنٹر کے دائريکٹر ڈاکٹر کيپي لارن (Dr. Cappelorn) نے شرکت کي- اقبال اکيڈمي سکنڈے نيويا کے صدر غلام صابر اور ناظم اکادمي محمد سہيل عمر صاحب ، اکادمي بھي شريک گفتگو تھے - نظامت کے فرائض ہادي خان نے انجام دئيے- غلام صابر صاحب نے اقبال اور کرکے گور کے فکري سرمائے اور مشترک تصورات پر اظہار خيال کيا اور ڈنمارک ميں رہنے والے پاکستاني حضرات اور مسلمان باشندوں اور مقامي معاشرے کے درميان مکالمے اور افہام و تفہيم پر زور ديا نيز اس ضمن ميں ان دونوں بڑے مفکرين کے افکار کو مکالمے کي بنياد فراہم کرنے کے ليے کليدي اہميت کا حاصل قرار ديا -صابر صاحب کے بعد ڈاکٹر جوزف نے اپنا تحريري مقالہ اقبال اور کرکے گور حاضرين کے سامنے پيش کيا جس ميں دونوں مفکرين کا تقابلي مطالعہ کيا گيا تھا- کرکے گور سنٹر کے ڈائريکٹر ڈاکٹر کيپي لارن نے غاز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کرکے گور نے اپنے فلسفيانہ افکار ايک ادبي بلکہ شعري اسلوب ميں بيان کيے تھے لہذا فلسفے کي دنيا ميں اسے فوري طور پر ايک سنجيدہ فلسفي کے طور پر قبول نہيں کيا گيا اور ايک مدت کے بعد يہ اعتراف کيا گيا کرکے گور ايک فلسفيانہ نظام اور سنجيدہ فکري مباحث پر کلام کرنے والا فلسفي ہے -کرکے گور کے ہاں بنيادي طور پر جديد انسان کے اس مسئلے کي طرف اشارہ کيا گيا ہے کہ جونہي تصور انسان اور تصور کائنات، تصور خدا سے جدا ہو جاتا ہے انسانوں کے درميان تعلق اور رابطہ بھي منہدم ہونے لگتا ہے اور يوں انسان انسان سے اجنبي ہو کر دوسرے انسان کو محض غيريت کي نگاہ سے ديکھتا ہے- يہ غيريت اور اس سے پيدا ہونے والي کشمش اس وقت دور نہيں ہو سکتي جب تک يہ بات قبول نہ کي جائے کہ وجود انساني جسم اور نفس کے علاوہ ايک تيسري ماورائي جہت بھي رکھتا ہے جسے روح کا نام ديا جاتا ہے جو الوہي ہے اور ہم سب ميں مشترک - يہي وہ بنياد ہے جس پر صحيح انسان تعلقات اور درست تصور انسان استوار ہوتا ہے- جديد انسان کا الميہ يہي ہے کہ اس نے اس تيسري مگر سب سے بنيادي جہت کو فراموش کر ديا اور اس کے نتيجے ميں اس کے تصور انسان ميں جو خلل پيدا ہوا اس سے اس کي سماجي زندگي، سياسي زندگي اور ثقافت سبھي متاثر ہوتي چلي گئيں - ڈاکٹر کيپي لارن نے اس حوالے سے کرکے گور کي فکر کے اہم نکات کي وضاحت کي اور صابر صاحب کي تائيد کرتے ہوئے کرکے گور کے افکار کو ڈنمارک ميں رہنے والے مسيحي اور مسلم باشنددوں کے درميان مکالمے کے ليے اہم بنياد قرار ديا - ناظم اکادمي نے اپني گفتگو کا غاز اس نکتے سے کيا کہ اسلامي روايت شعر و ادب ميں چونکہ حکيمانہ شاعري کي ايک قديم روايت موجود رہي ہے اور عربي ، فارسي اور اردو شاعري ميں اس کا ہر عہد ميں اعلي سطح پر اظہار ملتا ہے لہذا اقبال کو کبھي بھي ان کے عہد ميں يا بعد ميں اجنبي نہيں سمجھا گيا بلکہ انھيں حکيمانہ شاعري کا بيسويں صدي ميں سب سے بڑا دمي تسليم کرتے ہوئے ايک بلند پايا مفکر اور فلسفي کا درجہ بھي ديا گيا-مشرقي تہذيبوں کے تصور شعر ميں ايک مشترک فکري بنياد پائي جاتي ہے جس ميں شعري تخليق کے عمل کو اپني اعلي ترين سطح پر اظہار جذبات و احساسات تک محدود رکھنے کي بجائے بيان حقائق اور معارف کي ترجماني کا وسيلہ سمجھا گيا ہے -دنيا کي ساري بڑي شاعري انسان کے بنيادي سوالوں سے بحث کرتي ہے يعني ميں کون ہوں؟ کہاں سے يا ہوں؟ کہاں جا رہا ہوں ؟ اس کائنات سے ميرا کيا تعلق ہے؟ دوسرے انسانوں سے ميرا کيا رشتہ ہے؟ انسان معاشرے اور کائنات کا خدا سے کيا رشتہ ہے؟ اور ميري منزل کيا ہے؟ اقبال کي بڑي شاعري انہي سوالوں اور ان کے حکيمانہ جوابات کا ايک حسين شعري بيانيہ ہے - اقبال کي فکر کو اگر فکر انساني کے تين بڑے ادوار کے حوالے سے ديکھا جائے تو اس کي ايک نئي معنويت سامنے تي ہے- يہ تين بڑے ادوار يعني قديم روايت فکر، جديديت اور ما بعد جديديت کے ناموں سے موسوم کيے جاتے ہيں اور ان تينوں ادوار کي اپني اپني خوبياں خامياں دکھائي گئي ہيں- قديم فکر نے حيات و کائنات کے بنيادي معني اور اس کي ما بعدالطبيعاتي اساس کو سب سے زيادہ وضاحت اور سلامتي سے محفوظ رکھا جبکہ سماجي علوم، عمراني مسائل اور کونيات ميں اس کا حصہ بعد کے ادوار کے مقابلے ميں کمتر قرار ديا جاتا ہے-جديديت نے سائنسي علوم کي ترقي اور کائنات کي مادي تعبير کے ميدان ميں دوسرے ادوار کے مقابلے ميں زيادہ نماياں کارنامے انجام ديئے اور ايجادات اور سائنسي انکشافات ميں اس کاحصہ دوسرے ادوار سے بڑھا ہوا ہے تاہم تجرباتي سائنس (eetfcMto) کے سحر ميں گرفتار ہو کر جديديت نے مابعد الطبيعات کے ليے فراموشگاري اور سماجي انصاف کے ليے بے اعتنائي کا رويہ اپنايا اور يوں ان دونوں ميدانوں ميں باقي ادوار کے مقابلے ميں پيچھے رہ گئي - مابعدجديدت نے کائنات کي مابعد الطبيعاتي تعبيراور ايک ہمہ گير تصور حيات و کائنات کا امکان ہي سرے سے رد کر ديا اور اس کے ساتھ سائنسي علوم کي ترقي ميں اس کا کوئي ايسا غير معمولي کردار بھي نہ رہا جو اسے جديديت کے مقابلے ميں برتر مقام دے سکتا ، تاہم سماجي علوم اور عمراني مسائل کے ضمن ميں اس کي کا کردگي باقي دونوں ادوار سے بہتر رہي اور اس نے سماجي انصاف، انساني محرومي اور معاشي ناہمواري جيسے مسائل پر سب سے زيادہ اور موثر توجہ دي- علامہ محمد اقبال ان تينوں ادوار کے صالح عناصر اور مفيد اندوختہ فکر کو قبول کر کے اپني نثري اور شعري تصانيف کے وسيلے سے دوبارہ بيان کرتے ہيں، ان کي نارسائي اور غلطي کي اصلاح کرتے ہيں اور ئندہ کے ليے راہ عمل کا تعين کرتے ہيں- يوں اقبال کي معنويت فکر قديم کے وارث، جديديت کے ناقد اور ما بعد جديديت کے مصلح کي تين حيثيات ميں ايک غير معمولي اہميت اختيار کر ليتے ہيں -ناظم اکادمي کي گفتگو کا تيسرا نکتہ يہ تھا کہ اقبال کے ہاں مسلم غير مسلم تعلقات کے ضمن ميں اور تقابل اديان کے موضوع پر نہايت قابل قدر رہنما خيالات ملتے ہيں جو نہ صرف ج کي دنيا کے سنگين مسئلے ، تہذيبي تصادم، کے حل کے ليے روشني فراہم کرتے ہيں بلکہ مختلف اديان کے درميان مکالمے کي بنياد بھي تشکيل دے سکتے ہيں - تينوں مقررين کي گفتگو کے بعد حاضرين کي طرف سے سوالات کيے گئے جن کے مقررين نے مشترکہ طور پر جوابات فراہم کيے -
محمد سہيل عمر
|