The teaching of the Qur'an that life is a process of progressive creation necessitates that each generation, guided but unhampered by the work of its predecessors, should be permitted to solve its own problems.
(The Reconstruction of Religious Thought in Islam) |
|
اسیکنڈے نیویا میں فکر اقبال کا فروغ
عارف کسانہ
|
علامہ اقبال خوش نصیب ہیں کہ اُن کے چاہنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں اور اگر برصغیر کی کسی شخصیت پر دنیا کی درسگاہوں میں عملی اور تحقیقی کام ہورہا ہے تو وہ بلاشبہ علامہ اقبال ہیں۔علامہ اقبال کی عالمگیر مقبولیت اُن کے شاعر ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اُن کے پیغام اور افکار کے باعث ہے۔اُن کے پیغام کا منبع قرآن حکیم کی تعلیمات اور عشق (صلی اللہ علیہ وسلم) مصطفےٰ ہے۔ علامہ نے خدا سے جو یہ دعا کی تھی کہ
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کردے
میرے خیال میں یہ بارگاہ ایزدی میں اس دعا کی قبولیت کی سند ہے جو دنیا بھر میں فکر اقبال کا فروغ جاری ہے۔ علامہ اس اعتبار سے بھی خوش نصیب ہیں کہ وہ واحد مسلم مفکر ہیں جن کا تمام مکاتب فکر نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ جب تک واعظین کلام اقبال کو شامل نہ کرلیں اُن کا خطاب مکمل نہیں ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ جب زندہ تھے تو انہیں علماء کی جانب سے شدید محاذ آرائی نہ صرف سامنا تھا ۔ علامہ نے بھی جب کبھی موقع ملا اُن پر خوب چوٹیں کیں۔ بحرحال یہ امر باعث مسرت ہے اب مذہبی حلقوں اور تمام مکاتب فکر کے علماء فکر اقبال کے مداح ہیں اور اسے اسلام کا پیغام قراردے کر اپنے واعظ کا لازمی جزو بناتے ہیں۔ دور حاضر میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی فضا میں فکر اقبال اتحاد اور امن کا درس یاد دلاتی ہے جس کا فروغ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
اسکینڈے نیویا میں جناب غلام صابر نے فکر اقبال کے فروغ کا بیڑا اٹھایا اور ۲۰۰۲ء میں انہوں نے اقبال اکیڈمی اسکینڈے نیویا کی بنیاد رکھی ۔یہ اقبا ل اکیڈمی لاہور کی واحد شاخ ہے جو پاکستان سے باہر قائم کی گئی۔ غلام صابر ایک سچے عاشق اقبال ہیں اور انہوں نے عملی طور پر اس کا حق ادا کیا ہے۔ وہ اعلیٰ پائے کے تحقیقی مصنف ہیں انہوں نے اقبال شاعر فردا علاوہ ایک ڈینش فلاسفر کو علامہ کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے کتاب Iqbal and Kierkegaard لکھی جو علمی ادبی اور تحقیق کے میدان میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ایک اور کتاب Iqbal Religion of the New Age لکھی ہے جس پر انہیں صدر پاکستان کی جانب سے تمغہ اور سند حسن کارکردگی ملی ہے۔ گذشتہ تیرہ سال سے باقاعدگی سے دو مرتبہ یوم اقبال کی تقریب منعقد کرتے ہیں۔ اپریل میں اردو اور نومبر میں انگریزی زبان میں ہونے والے ان تقاریب میں دینا بھر سے علمی ادبی اور اقبال شناس شخصیات شرکت کرتی ہیں۔ ڈنمارک میں مقیم مختلف ممالک کے سفیربھی اکثر اوقات یوم اقبال میں شرکت کرتے ہیں۔ سال ۲۰۰۶ء میں غلام صابر صاحب نے بہت محبت سے مجھے نہ صرف مدعو کیا بلکہ تقریب کا مہمان خصوصی بنا دیا جو میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ کچھ عرصہ سے ماہ نومبر میں ہونے والے یوم اقبال کی تقریب کوپن ہیگن میں قائم کرسچیئن اسلامک سٹڈی سینٹر میں منعقد کیا جاتاہے۔ اس سینٹر کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر لیسی راسموسن ہیں ۔ وہ کوپن ہیگن یونیوسٹی کے یورپ اور اسلام کے بارے میں قائم مرکز سے وابسطہ ہیں۔ انہوں نے قرآن حکیم کا ڈینش زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے۔
اسکینڈے نیویا میں فکر ا قبال پر سب زیادہ کام ڈنمارک میں ہوا ہے جو اب بھی جاری ہے۔ وہیں ڈاکٹر ارم خواجہ نے علامہ اقبال اور رومی پر تحقیق کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ کوپن ہیگن میں نوجوان عثمان ملک علامہ اقبال پر ایک دستاویزی فلم بنا رہے ہیں۔سویڈن کے جنوبی شہر لند میں سویڈش ایشین سٹڈیز نیٹ ورک میں اقبالیات پر کام ہورہاہے۔ ہم نے نومبر ۲۰۰۷ء میں سٹاک ہوم سٹڈی سرکل کی بنیاد بھی علامہ کے یوم ولادت کو مناتے ہوئے رکھی اور ہر ماہ ہونے والی نشست میں علامہ کے پیغام کو شامل کیا جاتا ہے۔ سفارت خانہ پاکستان سویڈن نے بھی اس سال پہلی مرتبہ سفیر پاکستان جناب طارق ضمیر کی ذاتی دلچسپی کے باعث یوم اقبال منایا اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ناروے میں فرحان شاہ اوسلو یونیوسٹی میں اقبالیات میں پروفیسر سیفت بیک توویک کی نگرانی میں ایم اے کررہے ہیں۔ انہوں نے اس سال نومبر میں کوپن ہیگن میں ہونے والے یوم اقبال پر انہوں نے تصور خدا اور اس کے معاشرہ پر اثرات اور فکر اقبال کے حوالے سے بہت اہم مقالہ پیش کیا۔ اس تقریب میں معروف ماہر اقبالیات اور بہت سی کتابوں کے مصنف جناب پروفیسر محمد شریف بقا نے علامہ اقبال بحیثیت ایک سماجی مصلح پر اظہار خیال کیا۔ سامعین نی اُن سے بہت سے سوالات کئے جن کے انہوں نے بہت خوش اسلوبی سے جوابات دیئے۔ اس تقریب میں شرکت کرنے کے ساتھ ڈنمارک میں پاکستان کے سفیر جناب مسرور احمد جونیجو، سید اعجاز حیدر بخاری کونسلرلوکل کونسل، باشی خان ، عابد علی عابداور دیگراحباب سے ملنے کو موقع ملا ۔ نوجوان اور علامہ اقبال پر تحقیقی کام کرنے والے جن میں کچھ ڈینش باشندے بھی شامل ہیں اس تقریب میں شریک تھے۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے ڈاکٹر امینہ خان اس سیمنار میں تشریف نہ سکیں ان کے متبادل برطانیہ سے آئے ہوئے اشرف چوہدری نے اظہار خیال اور سامعین نے بھی اُن سے خوب سوالات کیئے۔ نوجوان سکالر نوید بیگ نے اسلامک کونسلنگ کے حوالے سے تفصیلات بیان کیں اور انہوں نے کہا کہ یہ ماڈل یورپ کے دیگر ممالک میں اپنایا جاسکتا ہے۔
یوم اقبال کی اس تقریب میں جناب غلام صابر خرابی صحت کے باوجود شریک ہوئے اور تمام مہمانوں سے ملے۔ انہوں نے مختصر افتتاحی کلمات میں علامہ اقبال کے خظبات کا ایک خوبصورت اقتباس پیش کیا اور کہا کہ تمام انسان مخلوق خدا ہے اس لیے کسی سے بھی نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،۔سفیر پاکستان جناب مسرور احمد جونیجو نے غلام صابر صاحب کو تجویز پیش کی کہ آئندہ سے یوم اقبال مشترکہ طور پر سفارت خانہ پاکستان میں منایا کریں ،جس پر اتفاق کیا گیا۔ تیرہ برس قبل ضناب غلام صابر نے فکر اقبال کی جو شمع روشن کی تھی اس کی لو بڑھتی جارہی ہے اور اس سے نہ صرف اسکینڈے نیویا بلکہ دیگر ممالک میں رہنے والے بھی مستفید ہورہے ہیں۔
|
|
|