www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

مندرجات

ابتدائیہ
علم اور مذہبی مشاہدہ
مذہبی واردات کے انکشافات کا...
خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم
انسانی خودی اس کی آزادی اور...
مسلم ثقافت کی روح
اسلام میں حرکت کا اُصول
کیا مذہب کا امکان ہے؟
حواشی و حوالہ جات
Quranic Index


دیگر زبانیں

کیا مذہب کا امکان ہے؟

“ہر زمانے اور تمام ممالک کے مذہبی تجربے کے ماہرین کی شہادت یہ ہے کہ ہمارے عمومی شعور سے بالکل وابستہ ایک ایسا شعور بھی ہے جس میں بڑی صلاحیتیں ہیں۔ اگر اس قسم کے حیات بخش شعور اور علم افروز تجربے کے امکانات کو کھول دیں تو مذہب کے امکان کا سوال بطور ایک اعلیٰ تجربے کے بالکل جائز ہو جائے گا اور وہ ہماری سنجیدہ توجہ کا مرکز بن سکے گا۔”
اقبالؒ

وسیع معنوں میں بات کریں تو مذہبی زندگی کی تقسیم تین ادوار میں ہو سکتی ہے۔ ان کو اعتقاد، فکر اور کشف کے دور گردانا جا سکتا ہے۔ پہلے دور (اعتقاد) میں مذہبی زندگی ایک نظم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، جس کی تعمیل ایک فرد یا ایک پوری جماعت، اس کے حتمی معنی اور مدعا کی عقلی تفہیم کے بغیر بھی، ایک غیر مشروط حکم کے طور پرکرتی ہے۔ یہ رویہ ممکن ہے کہ کسی قوم کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں بڑے اہم نتائج پیدا کرنے کا سبب بن جائے، مگر جہاں تک کسی فرد کی باطنی نشو ونما، ارتقاء اور وسعت کا تعلق ہے، اس میں یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کسی نظام کی مکمل اطاعت کے بعد وہ دور آتا ہے جب اس نظام اور اس کے تحکم کے حتمی سرچشمے سے کوئی بات عقلی طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ اس دور میں مذہبی زندگی ایک طرح کی مابعد الطبیعیات میں اپنی بنیاد تلاش کرتی ہے یعنی منطقی طور پر ساری کائنات کے بارے میں ایک مربوط نقطہ نظر۔ تیسرے دور میں مابعد الطبیعیات کی جگہ نفسیات لے لیتی ہے۔ اور مذہبی زندگی میں یہ امنگ پرورش پاتی ہے کہ وہ حقیقت مطلقہ سے براہ راست شاد کام ہو۔ یہاں آکر مذہب، زندگی اور قوت کے ذاتی سطح پر انجذاب کا معاملہ بن جاتا ہے جس سے فرد کی خود اپنی ایک آزاد شخصیت نکھرتی ہے__ قانون کے شکنجوں سے رستگاری حاصل کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ قانون کی اساس خود اپنے شعور کی گہرائیوں میں تلاش کرنے کی بنا پر، جیسا کہ ایک مسلمان صوفی کا قول ہے کہ قرآن پاک کو اس وقت تک سمجھنا ممکن نہیں جب تک کہ وہ ایمان لانے والے پر اس طرح نازل نہ ہو جس طرح کہ نبی پاک ﷺ پر نازل ہوا تھا۔ ۱؎

ترے ضمیرپہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف

مذہبی زندگی کی نشو و نما کے اس آخری مرحلے سے مترشح ہونے والے مذہب کے مفہوم کو میں زیر عنوان مسئلے پر بحث کے دوران پیش نظر رکھو ںگا۔ بدقسمتی سے اس مفہوم میں مذہب کو تصوف کا نام دیا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ ہمارے عہد کے یکسر تجربی نقطہ نظر کے بالکل الٹ ایک ایسا ذہنی رحجان ہے جو زند گی کی نفی اور حقائق سے گریز پر مشتمل ہے ۔ تاہم مذہب کا اعلیٰ تصور جو زندگی کی وسعتوں کا متلاشی ہے لازمی طور پر ایک تجربہ ہے اور تاریخی طور پر اس نے سائنس سے بھی پہلے اسے اپنی لازمی بنیاد کی حیثیت سے تسلیم کر لیا تھا۔ اس سطح پر مذہب انسانی شعور کو نکھارنے کی ایک سچی کوشش سے عبارت ہے اور یوں تجربے کی اپنی مختلف سطحوں کے لئے اسی طرح ناقدانہ رویہ رکھتا ہے جس طرح کہ خود اپنے مختلف مدارج پر فطرتیت (نیچرل ازم) جرح و تنقید کرتی ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یہ ممتاز جرمن فلسفی عمانویل کانٹ تھا جس نے سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا کہ “کیا مابعد الطبیعیات کا امکان ہے؟” ۲؎ اس نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تھا۔ اس کے دلائل کا اطلاق ان حقائق پر بھی اتنا ہی موثر ہے جو خصوصی طور پر مذہب کی دلچسپی کے حقائق ہیں۔ اس کے مطابق موجوداتِ حواس کو علم کا روپ دھارنے کے لئے کچھ صوری شرائط لازمی طور پر پوری کرنی چاہیں ۔ شئے بذا تہٖ ایک تحدیدی تصور ہے۔ اس کا وظیفہ صرف ایک نظم پیدا کرنا ہے۔ اگر اس تصور کے مقابل کوئی حقیقت موجود ہے بھی تو وہ تجربے کی حدود سے باہر ہے اور نتیجۃً اس کے وجود کا عقلی ادراک نہیں کیا جاسکتا۔ کانٹ کا یہ نظریہ آسانی کے ساتھ قبول کرنا ممکن نہیں۔ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ سائنس کے نئے انکشافات کے پیش نظر، کانٹ کی سوچ کے علی الرغم، عقلی بنیادوں پر الٰہیات کا ایک نظام استوار کرنا ممکن ہے۔ مثلاً یہ کہ مادہ اپنی ماہیت میں روشنی کی منضبط لہروں یعنی نوری امواج سے عبارت ہے، کائنات محض فکر کا ایک عمل ہے، زمان و مکان متناہی ہیں اور ہیزن برگ کا فطرت کے غیر متعین ہونے کااُصول۔ ۳؎ مگر ہمارے موجودہ مقاصد کے لئے ضروری نہیں کہ ہم اس نقطہ پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔ شئے بذا تہٖ کا جہاں تک معاملہ ہے کہ عقل محض اس تک رسائی نہیں رکھتی کیونکہ وہ تجربے کی حدود سے باہر ہے، کانٹ کا موقف صرف اسی صورت میں قابل قبول ہوگا جب ہم یہ فرض کر لیں کہ تمام تجربات سوائے معمول کے تجربے کے ناممکن ہیں۔ چنانچہ واحد سوال جو سامنے آئے گا وہ یہ ہے کہ کیا تجربے کی معمول کی سطح پر ہی علم کا حصول ممکن ہے؟ کانٹ کے شئے بذا تہٖ، اور شے جیسی کہ ہمیں نظر آتی ہے کے بارے میں کانٹ کے نقطہ نظر میں ہی مابعد الطبیعیات کے امکان کے بارے میں اٹھنے والے سوال کی صحیح نوعیت پوشیدہ ہے۔ مگر اس وقت کیا صورت حال ہوگی جب معاملہ اس کے الٹ ہو جیسا کہ کانٹ نے سمجھ رکھا ہے۔ سپین کے عظیم مسلم صوفی فلسفی محی الدین ابن عربی کا قول بلیغ ہے کہ خدا’ محسوس و مشہود‘ اور کائنات ’معقول‘ ہے۔ ۴؎ ایک دوسرا مسلم صوفی، مفکر اور شاعر عراقی نظام ہائے مکاں اور نظام ہائے زمان کی کثرت پر اصرار کرتا ہے اور خود خدا کے اپنے زمان اور مکان کی بات کرتا ہے۔ ۵؎ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ جسے ہم خارجی دنیا کہتے ہیں محض ہماری عقل کی آفریدہ ہو اور انسانی تجربے کے کئی دوسرے مدارج بھی ہوں جو زمان و مکاں کے دوسرے نظاموں نے کسی اور انداز میں ترتیب دے رکھے ہوں __ ایسے مدارج جن میں تصور اور تجزیہ ایسا کردار ادا نہ کرتے ہوں جیسا کہ ہمارے معمول کے تجربے میں ہوتا ہے۔ تاہم کہا جا سکتا ہے کہ تجربے کا وہ درجہ جس میں تصورات کا عمل دخل نہیں ہوتا کلی انداز کے علم کی بنیاد نہیں بن سکتا کیونکہ محض تصورات ہی تجربے کو سماجی اور عمرانی تفہیم دیتے ہیں۔ حقیقت تک رسائی کا انساں کا دعویٰ جس کی اساس مذہبی تجربے پر ہے وہ لازمی طور پر انفرادی اور ناقابل ابلاغ رہے گا۔ اس اعتراض میں کچھ قوت ہے بشرطیکہ اس سے مراد یہ ہو کہ صوفی مکمل طور پر روایتی طریقوں،رویوں اور توقعات کے تابع ہے۔ قدامت پسندی مذہب میں بھی ویسی ہی بری ہے جیسی انسانی سرگرمیوں کے دوسرے شعبوں میں ۔ یہ خودی کی تخلیقی آزادی کو برباد کر دیتی ہے اور تازہ روحانی کوششوں کے دروازوں کو مقفل کر دیتی ہے۔ سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے عہد وسطیٰ کے صوفیاء کے انداز اب قدیم سچائی کو دریافت کرنے میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتے۔ تاہم مذہبی تجربے کے ناقابل ابلاغ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی آدمی کی جستجو عبث اور بے کار ہے۔ یقینا مذہبی تجربے کے ناقابل ابلاغ ہونے سے خودی کی حتمی نوعیت کے بارے میں ہمیں سراغ ملتا ہے ۔ روزمرہ کے عمرانی معاملات میںہم عملاً گویا تنہا ہوتے ہیں۔ ہم دوسرے انسانوں کی انفرادیت کے عمق تک رسائی کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم انہیں محض وظائف کے طور پر لیتے ہیں اور ان کی شناخت کے ان پہلوئوں کے حوالے سے ہی ان تک پہنچتے ہیں جن سے ہم ان سے محض تصوراتی سطح پر معاملہ کر سکتے ہیں۔ مذہبی زندگی کی انتہا یہ ہے کہ ہم فرد کو ایک ایسی خودی کے طور پر دریافت کریں جو اس کی تصوراتی سطح پر قابل بیان روزمرہ کی عادی فردیت سے کہیں زیادہ گہری ہو۔ “حقیقی ذات” سے تعلق کی بنا پر خودی اپنی انفرادیت، اپنی مابعد الطبیعیاتی حیثیت کو دریافت کرتی ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ اس مرتبے اور حیثیت میں زیادہ بلند مقامات کے حصول کے امکانات کیا ہیں۔ ٹھیک طور پر یوں کہیں گے کہ تجربہ جو اس انکشاف کی طرف لے جاتا ہے وہ اس عقلی حقیقت کو تصوراتی سطح پر منظم نہیں کرتا، یہ ایک بین حقیقت ہے، ایک رویہ ہے جو اس باطنی حیاتیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہوتا ہے جو منطقی حدود کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ وہ بذات خود ایک نئی دنیا تشکیل کرنے والے یا دنیا کو ہلا دینے والے عمل میں خود کو متشکل کرتا ہے اور محض اسی صورت میں اس لازمانی تجربے کے محتویات حرکت زماں میں خود کو جذب کر لیتے ہیں اور تاریخ ان کے مشاہدے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ “حقیقت” تک تصورات کے ذریعے سے پہنچنا کوئی بالکل سنجیدہ طریق کار نہیں ہے۔ سائنس کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کے برقی خلیے (الیکڑون) کوئی حقیقی شئے ہیں یا نہیں: یہ محض نشانات یا اشارات محض ایک روایت بھی ہو سکتے ہیں۔ صرف مذہب ہی جو لازمی طور پر ایک طریق زندگی ہے حقیقت تک پہنچنے کا سنجیدہ انداز ہے ۔ ایک اعلیٰ تجربے کی حیثیت سے وہ ہماری فلسفیانہ الٰہیات کے تصورات کی صحت کا ضامن ہے یا کم از کم وہ ہمیں خالص عقلی طریق کار کے بارے میں شک و شبے میں ڈال دیتا ہے جس سے وہ تصورات تشکیل پاتے ہیں۔ سائنس مابعد الطبیعیات کو مکمل طور پر نظر انداز کر سکتی ہے یا ’لانگے کے الفاظ میں‘ اسے شاعری کی ایک صائب شکل یا نیٹشے کے الفاظ میں اسے بالغوں کا ایک ایسا کھیل قرار دے سکتی ہے جسے کھیلنے کا انہیں حق پہنچتا ہے۔ ۶؎ مگر ایک ماہر مذہب، جو ان اشیاء کی ترتیب و تشکیل میں اپنے ذاتی مرتبہ کی تلاش میں سرگردان رہتا ہے تاکہ اپنی کوششوں کا حتمی مقصد حاصل کر لے، اس بات پر قناعت نہیں کر سکتا ۷؎ جس کو سائنس ایک در و غ ناگزیر کہہ دے یا محض ’جیسا کہ ‘ سے تعبیر کر دے۔ جہاں تک حقیقت کی فطرت مطلقہ کا تعلق ہے سائنس کو اپنی مہم میں کچھ بھی دائو پر نہیں لگانا پڑتا لیکن جہاں تک مذہب کا تعلق ہے خودی کا، ایک ایسے مرکز کی حیثیت سے جس کا کام ذاتی طور پر زندگی اور تجربے میں تصرف کرنا ہے، سارا مستقبل ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کردار کو، جو کہ صاحب کردار کی قسمت کے فیصلے پر مشتمل ہے، وہم و التباس پر منحصر نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ایک غلط تصور تفہیم کو غلط راہ پر لے جا سکتا ہے مگر ایک غلط کام پورے انسان کو پستیوں میں گرا دیتا ہے اور بالآخر انسانی خودی کے پورے ڈھانچے کو تباہ کر سکتا ہے۔ ایک خیال محض انسانی زندگی کو جزوی طور پر متاثر کرتا ہے۔ مگر عمل کا تعلق حرکی طور پر حقیقت مطلقہ سے ہے اور اس سے عام طور پر حقیقت کی طرف ایک پورے انسان کا ایک مسلسل رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ بلاشبہ عمل، یعنی نفسیاتی اور عضویاتی افعال پر کنٹرول رکھتے ہوئے خودی کی تعمیر کر کے اس کا حقیقت مطلقہ کے ساتھ فوری طور پر ربط پیدا کرنا،اپنی صورت اور ماہیت کے اعتبار سے انفرادی ہوتا ہے بلکہ اسے لازمی طور پر انفرادی ہونا چاہئے۔ تاہم اس کے اندر یہ خصوصیت موجود ہے کہ دوسروں کو اپنے ساتھ شریک کر لے اور وہ اس طرح کہ دوسرے بھی اس عمل کو کرنا شروع کر دیں تاکہ وہ اپنے طور پر دریافت کر سکیں کہ وہ حقیقت تک رسائی حاصل کرنے میں کس قدر موثر ہے۔ہر زمانے کے اور تمام ممالک کے مذہبی تجربے کے ماہرین کی شہادت یہ ہے کہ ہمارے عمومی شعور سے بالکل وابستہ ایک ایسا شعور بھی ہے جس میں بڑی صلاحیتیں اور امکانات ہیں۔ اگر اس قسم کے حیات بخش شعور اور علم افروز تجربے کے امکانات کو کھول دیں تو مذہب کے امکان کا سوال بطور ایک اعلیٰ تجربے کے بالکل جائز ہو جائے گا اور وہ ہماری سنجیدہ توجہ کا مرکز بن سکے گا ۔

اس سوال کے جواز سے ہٹ کر بھی کچھ اہم وجوہ ہیں کہ جدید ثقافت کی تاریخ کے اس موجودہ لمحے پر یہ سوال کیوں اٹھایا گیا ہے۔ پہلی بات تو اس سوال کی سائنسی نوعیت ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ ہر ثقافت کے دنیاکے بارے میں اپنے محسوسات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک فطریتی صورت بھی موجود ہوتی ہے۔ مزید یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فطرتیت کی ہر صورت بالآخر ایک طرح کی جوہریت پر منتج ہوتی ہے۔ ہمارے پاس برصغیر کا ایک تصور جو ہریت ہے، یونانی جوہریت ہے، مسلم جوہریت اور پھر جدید تصور جوہریت ہے۔ ۸؎ تاہم جدید جوہریت کا تصور بالکل منفرد ہے۔ اس کا محیر العقول ریاضیاتی پہلو جس نے کائنات کو ایک مبسوط تفرقی مساوات بنا دیا ہے اور اس کی طبیعیات جس نے اپنا ایک طریق کار استعمال کرتے ہوئے خود اپنے ہی معبد کے پرانے خدائوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے ہمیں اس سوال تک لے آئے ہیں کہ کیا علت و معلول کی اسیر فطرت ہی تمام تر سچائی ہے؟ کیا حقیقت مطلقہ ہمارے شعور پر کسی اور طرف سے بھی حملہ آور نہیں ہوتی؟ کیا تسخیر فطرت کا خالص عقلی منہاج ہی واحد منہاج ہے۔ پروفیسر اڈنگٹن کہتا ہے کہ ہمیں تسلیم ہے کہ “طبیعیات کے حقائق اپنی بنیادی ماہیت میں حقیقت کے محض جزوی پہلو ہو سکتے ہیں: ہم اس کے دوسرے پہلو سے کس طرح معاملہ کر سکتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دوسرے پہلو سے ہمارا تعلق طبیعیات والے حصے سے کم ہے۔ محسوسات، مقاصد اور اقدار بھی ہمارے شعور کو بناتے ہیں اسی طرح جس طرح کہ حسی ادراکات ان کی تعمیر کرتے ہیں۔ ہم حسی ادراکات کی راہ پر چلتے ہیں اور وہ اس بیرونی دنیا کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہیں جس سے سائنس بحث کرتی ہے۔ ہم اپنے وجود کے مختلف عناصر کی بھی پیروی کرتے ہیں اور ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہ زمان و مکان کی دنیا کی طرف رہنمائی نہیں کرتے، مگر یقینی طور پر وہ کہیں نہ کہیں لے جاتے ضرور ہیں” ۹؎

دوسرے یہ کہ ہمیں اس سوال کی عظیم عملی اہمیت پر غور کرنا چاہئے۔ دور جدید کا انسان تنقیدی فلسفوں اور سائنسی اختصاص کی بنا پر ایک عجیب قسم کی اذیت کا شکار ہے۔ اس کی فطرتیت نے اسے فطرت کی قوتوں پر بے مثال کنٹرول عطا کیا ہے، مگر اس کے اپنے مستقبل پر ایمان سے اسے محروم کردیا ہے۔ یہ کس قدر عجیب ہے کہ ایک ہی تصور مختلف ثقافتوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کرتا ہے۔ اسلام میں ارتقا کے نظریے کی تشکیل و تدوین نے مولانا جلال الدین رومی کی انسان کے حیاتیاتی مستقبل کے بارے میں زبردست امنگ میں ولولے اور جوش کو جنم دیا۔ کوئی بھی مہذب مسلمان جذب و شوق میں آئے بغیر ان اشعار کو نہیں پڑھ سکتا۔ زمین میں بہت نیچے اس کی تہوں میں

میں کچے دھات (سونا) اور پتھروں کی دنیا میں زندگی کرتا تھا
پھر میں نوع بنوع پھولوں کی مسکراہٹ میں ظاہر ہوا
پھر میں جنگلی جانوروں اور آوارہ وقت کے ساتھ اڑا پھرا
زمین میں، فضا میں اور سمندروں کے دوش پر چلا
ہر بار ایک نئی زندگی سے شاد کام ہوا
کئی بار ڈوبا اور ابھرا
رینگا اور بھاگا
میرے جواب کے تمام بھید کھل رہے
کیونکہ شکل و صورت نے انہیں دیدنی بنا دیا
اور اب … ایک انسان
اور میری منزل
دبیز بادلوں اور چرخ نیلی فام سے پرے ہے
اس دنیا میں جہاں نہ تغیر ہے اور نہ موت
فرشتے کی شکل میں اور پھر ان سے بھی دور
لیل و نہار کی حدبندیوں سے ماوراء
دیدنی نا دیدنی موت و حیات کی قید سے آزاد
جہاں سب کچھ ہے سب کچھ جو پہلے دیکھا نہ سنا
بالکل ایک اور اس کل میں سب کچھ سمایا ہوا ہے۔ ۱۰؎

دوسری طرف یورپ میں اسی نظریہ ارتقا کی زیادہ منظم اور منضبط تشکیل نے اس اعتقاد کو جنم دیا ہے کہ اس نقطہ نظر کے لئے کوئی سائنسی بنیاد نہیں کہ انسانی زندگی کی موجودہ ہمہ رنگ گو نا گونی میں مستقبل کے اندر مزید کوئی اضافہ ہوگا۔ اس طرح جدید انسان کے اندر چھپی ہوئی مایوسی نے خود کو سائنسی اصطلاحات کے پردے کے پیچھے چھپا لیا ہے ۔ جرمن فلسفی فریڈرک نیٹشے نے گرچہ یہ سوچا تھا کہ ارتقا کا نظریہ اس یقین کو جواز نہیں دیتا کہ انسان کے آگے کوئی نہیں جاسکتا۔ لیکن اس سلسلے میں نیٹشے کی کوئی استشنائی حیثیت نہیں۔ انساں کے مستقبل کے بارے میں اس کے جوش و ولولے کا اظہار تکرار دوامی کے تصور میں ہوا جو کسی انسان کا وضع کردہ بقائے دوام کے بارے میں شاید سب سے زیادہ مایوس کن تصور ہے۔ تکرار دوامی کوئی دوامی تکوین کا عمل نہیں۔ کون وہستی کے بارے میں یہ وہی پرانا تصور ہے جو تکوین کے بہروپ میں آگیا ہے۔

لہٰذا جدید دور کا انساںاپنی عقلی سرگرمیوں کے نتائج سے مکمل طور پر مسحور ہونے کی بنا پر باطنی لحاظ سے روحانیت سے محروم زندگی گزار رہا ہے۔ فکریات کے میدان میں وہ خود اپنے آپ سے تصادم میں مبتلا ہے اور معاشی اور سیاسی دنیا میں وہ دوسروں سے کھلے تصادم کا شکار ہے۔ اپنی بے مہارا نانیت اور زروسیم کی بے پناہ بھوک اس کی ذات میں و دیعت شدہ تمام اعلیٰ محرکات و اقدار کو بتدریج مسل اور کچل رہی ہے۔ اور اسے سوائے زندگی سے اکتاہٹ کے اور کچھ دینے سے قاصر ہے۔ موجودہ حقائق میں کھو جانے کی وجہ سے وہ مکمل طور پر خود اپنے اعماق وجود سے کٹ گیا ہے۔ منظم مادیت کے روّیے نے اس کی توانائیوں کو مفلوج کر دیا ہے جس کے بارے میں ہکسلے نے پہلے ہی خدشے اور تاسف کا اظہار کر دیا تھا۔ مشرق میں بھی صورت حال کچھ کم ناگفتہ بہ نہیں ہے۔ عہد وسطیٰ کا وہ صوفیانہ اسلوب جس میں مذہبی زندگی نے اپنا اعلیٰ ترین اظہار کیا تھا اور مشرق و مغرب دونوں جگہ اس نے خوب نشو و نما پائی اب عملی طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ اور شاید اسلامی مشرق میں اس سے جس قدر بربادی ہوئی کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بجائے اس کے کہ وہ عام آدمی کی باطنی زندگی کی قوتوں کو مجتمع کرکے اسے تاریخ کے دھارے میں عملی شرکت کے لئے تیار کرتا اس نے اسے جھوٹی رہبانیت سکھائی ہے اور اسے جہالت اور روحانی غلامی پر قانع رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں اگر جدید ترکی، مصر اور ایران کے مسلمان اپنے لئے توانائی کے نئے سرچشموں کی تلاش میں نئی وفاداریوں کی تخلیق کریں جیسے حب الوطنی اور قومیت جنہیں نطشے بیماری اور پاگل پن اور تمدن و ثقافت کے خلاف مضبوط ترین قوتیں گردانتا ہے۔ ۱۱؎ روحانی احیا کے اس خالص مذہبی طریق سے مایوس ہو کر جو تنہا ہمارے جذبات اور افکار کو وسعت دے کر زندگی اور قوت کے ازلی سرچشمے سے ہمیں مربوط کرتا ہے۔ جدید مسلمان اپنے جذبے اور فکر کو محدود کرکے توانائی کے تازہ ذرائع کے قفل توڑنے کی امید پر ریجھا ہوا ہے۔ جدید لا دین سوشلزم جس کے اندر ایک نئے مذہب کا سارا ولولہ اور جوش موجود ہے ایک وسیع نظر رکھتا ہے مگر چونکہ وہ اپنی فلسفیانہ بنیاد ہیگل کی بائیں بازو کی سوچ پر رکھتا ہے وہ اس بنیاد ہی کے خلاف عمل پیرا ہے جس نے اسے قوت اور مقصدیت بخشی ہے۔ قومیت اور لادین سوشلزم دونوں، کم از کم انسانی روابط کی موجودہ صورت میں‘ تشکیک اور غصے کی نفسیاتی قوتوں سے توانائی حاصل کرنے کے لئے مجبور ہیں جس سے انسان کی روح مرجھا جاتی ہے اور توانائی کے چھپے ہوئے روحانی خزانوں تک اس کی رسائی ممکن نہیں رہتی۔ نہ تو قرون وسطیُ کے متصوفانہ اسلوب‘ نہ نیشنلزم اور نہ ہی لا دین سوشلزم اپنی بیماری سے مایوس انسانیت کو صحت بخش سکتا ہے۔جدید ثقافت کی تاریخ میں یہ لمحہ یقیناً ایک بہت بڑے بحران کا لمحہ ہے۔ حیاتیاتی احیا آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور مذہب، جو کہ اپنی اعلیٰ ترین صورت میں نہ تو ایک اندھا اذعانی عقیدہ ہوتا ہے اور نہ رہبانیت اور نہ رسم و رواج، تنہا جدید انسان کو اخلاقی طور پر وہ ذمہ داری اٹھانے کے قابل بنا سکتا ہے جو جدید سائنس کی ترقی کے نتیجے میں اس پر آن پڑی ہے اور انسان کے ایمان کو بحال کرکے ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کرسکتا ہے جسے وہ موت کے بعد بھی باقی رکھ سکے۔ انسان اپنی اصل اور اپنے مستقبل‘ اپنے آغاز اور انجام کے بارے میں بلند نگاہی حاصل کرکے ہی اس سماج پر فتح پانے کے قابل ہو سکے گا جو غیر انسانی مسابقت کا شکار تھے اور اس تہذیب پر جو مذہبی اور سیاسی اقدار کے تنازعات اور تصادم کے نتیجے میں اپنی روحانی وحدت گم کر چکی ہے۔

جیساکہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں ۱۲؎ کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مذہب ایک اقدام ہے جو اخلاقی اقدار کے مطلق اصولوں کو اپنی گرفت میں لاکر شخصیت کی خود اپنی قوتوں کو متحد کرتا ہے۔ دنیا کا تمام مذہبی ادب جس میں ماہرین کے اپنے ذاتی تجربات کاریکارڈ بھی شامل ہے،اگرچہ ان کا اظہار نفسیات کی ایسی فکری صورتوں میں ہوا ہو جواب مردہ ہو چکی ہے، اس امر کی تائید میں پیش کیا جا سکتا ہے۔یہ تجربات مکمل طور پراس طرح فطری ہیں جس طرح کہ ہمارے معمول کے تجربات فطری ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں وقوف کی قدر مشترک موجود ہے۔ اور جو چیز اس سے بھی بہت زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ خودی کی قوتوں میں مرکزیت پیدا کرکے شخصیت کی تعمیر نو کر دیتے ہیں۔ یہ تصور کہ یہ تجربے عصبی خلل کا اظہار یا صوفیانہ اور پُراسرار ہوتے ہیں اس سے ان تجربات کے معنی یا قدر کا سوال طے نہیں ہوتا۔ اگر ورائے طبیعیات کوئی نقطہ نظر ہو سکتا ہے تو ہمیں پوری جرأت سے اس امکان کا بھی سامنا کرنا چاہئے خواہ اس سے ہمارا معمول کا طرز زندگی اور انداز فکر بدل ہی کیوں نہ جائے ۔ سچ کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے موجودہ روّیے کو تبدیل کر دیں۔ اس بات سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر مذہبی روّیہ بنیادی طور پر کسی طرح کے عضویاتی خلل کا نتیجہ ہو۔ جارج فاکس ذہنی مریض ہو سکتا ہے مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے عہد میں انگلستان کی مذہبی زندگی میں پاکیزگی کو فروغ دینے والی قوت تھا۔ ۱۳؎ حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بھی اسی قسم کے مفروضات قائم کئے جاتے ہیں۔ درست: مگر اگر کوئی شخص یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے پورے عمل کی سمت تبدیل کرکے رکھ دے تو یہ نفسیاتی تحقیق و ریسرچ میں بہت دلچسپ نکتہ ہے کہ آپ ﷺ کے ان تجربات کے بارے میں تحقیق ہو جن کی بنا پر انہوں نے غلاموں کو آقا بنا دیا اور نوع انسانی کی تمام نسلوں کے کردار اور عمل کو نئی صورت بخش دی۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف سے اٹھائی گئی تحریک کے نتیجے میں ہونے والی مختلف طرح کی سرگرمیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی روحانی کشمکش اور ان کے کردار کو ایسا رد عمل نہیں گردانا جا سکے گا جو محض ذہن کے اندر کے کسی سراب کا نتیجہ قرار دے دیا جائے۔ اس کو سمجھنا بھی ناممکن ہے، سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ یہ کسی معروضی صورت حال سے پیدا ہونے والا رد عمل ہے جو نئے جوش و ولولہ، نئی تنظیموں اور نئے نقطہ ہائے آغاز پر مشتمل ہے۔ اگر ہم علم بشریات کے حوالے سے اس نکتہ پر غور کریں تو یہ معلوم ہوگا کہ انسان کی سماجی تنظیم میں وقت کی بچت کے پہلو سے سائیکو پیتھ ایک بنیادی محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا کام حقائق کی ترتیب اور ان کی وجوہات کی دریافت نہیں۔ وہ زندگی اور حرکت کے حوالے سے سوچتا ہے تاکہ نوع انسانی کے لئے رویّوں کے نئے انداز تخلیق کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اپنے خطرات اور التباسات ہیں۔ اسی طرح سائنس دان جو حسّی تجربے پر اعتماد کرتے ہیں ان کے ہاں بھی خطرات اور التباسات ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے طریق کار کے محتاط مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے تجربات کو التباس کے کھوٹ سے پاک کرنے کا اہتمام اسی طرح کرتا ہے جتنا کہ ایک سائنس دان کرتا ہے۔

اس باطنی مشاہدے کی صلاحیت نہ رکھنے والے لوگوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم تحقیق کا کوئی ایسا موثر طریق کیونکر دریافت کریںجو اس غیر معمولی تجربے کی ماہیت اور جواز کے بارے میں کچھ بتا سکے۔ عرب تاریخ دان ابن خلدون، جس نے جدید تاریخ کی علمی بنیادیں رکھیں، پہلا شخص ہے جس نے انسانی نفسیات کے اس پہلو کی جانب دھیان دیا اور اس تصور تک پہنچا جسے ہم نفس تحت الشعور کہتے ہیں۔ بعد میں انگلستان کے سرولیم ہملٹن اورجرمن فلسفی لائی بنیز ذہن کے دوسرے نامعلوم مظاہر کی تلاش میں دلچسپی لینے لگے۔ غالباً ژونگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ مذہب کی بنیادی ماہیت تحلیلی نفسیات کی حدود سے باہر ہے۔ تحلیلی نفسیات اور فن شاعری کے تعلق کے بارے میں ہونے والے مباحث کا جہاں تک تعلق ہے وہ ہمیں بتاتا ہے کہ فن کا صوری پہلو ہی نفسیات کا موضوع بن سکتا ہے۔ اس کے نزدیک مطالعہ فن کی بنیادی ماہیت نفسیات کے طریق کار کا موضوع نہیں بن سکتی۔ ژونگ کے بقول یہ امتیاز

“لازمی طور پر مذہب کی حدود میں بھی قائم رہنا چاہئے۔ یہاں بھی مذہب کے جذباتی اور علامتی اظہارات کو نفسیاتی مطالعے کاموضوع بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جن سے مذہب کی اصل نوعیت کا نہ تو انکشاف ہوتا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو نہ صرف مذہب بلکہ آرٹ بھی نفسیات کا ایک ذیلی شعبہ متصور کیا جاتا”۔ ۱۴؎

ژونگ نے اپنی ہی تحریروں میں خود اپنے اس اصول کو کئی بار پامال کیا ہے۔ اس طریق کار کے نتیجے میں ہمیں مذہب کی بنیادی ماہیت کے بارے میں حقیقی بصیرت اور انسانی شخصیت کے بارے میں علم فراہم کرنے کی بجائے جدید نفسیات نے نئے نظریات کا پنڈورا باکس ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے، جنہوں نے اعلیٰ الہامی مظاہر کی حیثیت سے مذہب کی ماہیت کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی ہیں اور ہم مکمل طور پر نااُمیدی کی طرف چلے گئے ہیں۔ ان نظریات سے بالعموم یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مذہب کا انسانی خودی سے ماوراء کسی حقیقت سے کوئی تعلق نہیںرہا ۔ اب یہ محض ایک طرح کا معروف حیاتیاتی آلہ ہے جو انسانی معاشرے کے گرد اخلاقی نوعیت کی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے تاکہ خودی کی غیر متزاحم جبلتوں کے خلاف ایک حفاظت کرنے والا سماجی پردہ قرار پاسکے۔ اسی لئے نئی نفسیات کے مطابق مسیحیت نے اپنا حیاتیاتی منصب پورا کر دیا ہے۔ جدید دور کے انساں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کی اساسی نوعیت کو سمجھ سکے۔ ژونگ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ:

“اگر ہماری رسومات میں پرانی بربریت کا شائبہ بھی موجود ہوتا تو یقینی طور پر ہم اسے سمجھ لیتے۔ آج ہمارے لئے یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ بے مہار انسانی نفس کی توانائی (لبیڈو) کیا کرے گی۔ جو سیزرز (رومی بادشاہوں) کے قدیم روم میں گونجتی تھی۔ آج کے عہد کا مہذب انساں اس سے بہت دور جا چکا ہے۔ وہ شکستہ اعصاب اور جنونی ہو چکا ہے۔ جہاں تک ہمارا معاملہ ہے وہ تقاضے جنہوں نے مسیحیت کو جنم دیا تھا وہ ختم ہو چکے ہیں۔ اب ہمیں ان کے مفہوم کا علم نہیں۔ ہم بالکل نہیں جانتے کہ عیسائیت ہمیں کس چیز سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ اہل علم لوگوں کے لئے یہ نام نہاد مذہبیت پہلے ہی اعصابی جنونیت تک پہنچ چکی ہے۔ گذشتہ دو ہزار سال کی عیسائیت نے اپنا کام کر لیا ہے اور اس نے ایسے بند باندھ دیئے ہیں جن سے ہماری گنہ گاری کے منظر ہم سے اوجھل ہو جاتے ہیں “۔ ۱۵؎

مذہبی زندگی کے اعلیٰ تصور میں یہ نکتہ مکمل طو پر غائب ہے۔ خودی کے ارتقا میں جنسی ضبط نفس تو بالکل ابتدائی سطح کی چیز ہے۔ مذہبی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد انسان کے موجودہ ماحول کی تشکیل کرنے والے سماجی تانے بانے کی اخلاقی صحت سے زیادہ اس کے ارتقا کو خودی کی زیادہ اہم منزل کی طرف حرکت پذیر کرنا ہے۔ وہ بنیادی ادراک جس سے مذہبی زندگی آگے کی جانب حرکت کرتی ہے وہ موجودہ خودی کی نازک اندام وحدت ہے جسے شکستگی کا خوف رہتا ہے، جس میں اصلاح کے امکانات ہیں اور جو یہ اہلیت بھی رکھتی ہے کہ کسی معلوم یا نامعلوم ماحول میں نئی صورت حال کی تخلیق کے لئے اپنی آزادی کو استعمال کرے۔ اس بنیادی ادراک کے پیش نظر اعلیٰ مذہبی زندگی اپنی توجہ ان تجربات پر رکھتی ہے جن سے حقیقت کی ان لطیف حرکتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے جو حقیقت کی تعمیر کے ممکنہ مستقل عناصر کے طور پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ خودی کے مقدر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر ہم معاملے پر اس نکتہ نظر سے غور کریں تو محسوس کریں گے کہ جدید نفسیات مذہبی زندگی کی دہلیز تک کو بھی نہیں چھو پائی۔ اور وہ اس سے جسے مذہبی تجربے کی گونا گونی اور ثروت کہا جا سکتا ہے سے بہت دور ہے۔ اس کے باثروت ہونے اور اس کی انوع و اقسام سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے میں آپ کے سامنے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جو سترہویں صدی کے ایک ممتاز مذہبی عبقری شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) کا ہے۔ انہوں نے اپنے معاصر صوفیا کا بلاکسی خوف اور جھجک کے ایک تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے جس کے نتیجے میں ایک نئی صوفیانہ تکنیک وجود میں آئی ہے۔ تمام مختلف قسم کے صوفیانہ مسلک جو برصغیر پاک و ہند میں مروّج ہیں وہ وسطی ایشیا اور عرب سے آئے۔ شیخ احمد سرہندی کا واحد مسلک ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کی سرحد عبور کی اور جو آج بھی پنجاب، افغانستان اور ایشیائی روس میں زندہ ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ جدید نفسیات کی زبان میں اس اقتباس کے حقیقی مفاہیم اُجاگر نہ کر سکوںگا کیونکہ ایسی زبان اس وقت موجود نہیں۔ تاہم چونکہ میرا سادہ سا مقصد یہ ہے کہ اس تجربے کے لامتناہی تنوع کے بارے میں کچھ اظہار کروں جن سے الوہیت کی تلاش میں خودی گزرتی اور ان کی چھان بین کرتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے اگر میں بظاہر نامانوس مصطلحات میں بات کروں کیونکہ ان میں معانی کا اصل جوہر موجود ہے اگرچہ یہ ایک ایسی مذہبی نفسیات کی تحریک پر متشکل ہوئی ہیں جو ایک مختلف ثقافت کے ماحول میں پروان چڑھی ہے۔ اب میں اس اقتباس کی طرف آتا ہوں۔ حضرت شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) کے سامنے ایک شخص عبد المومن کا تجربہ یوں بیان کیا گیا:

“مجھے یوں لگتا ہے جیسے آسمان اور زمین اور خدا کا عرش اور دوزخ اور جنت میرے لئے تمام ختم ہو چکے ہیں۔ جب میں اپنے اِرد گرد دیکھتا ہوں تو انہیںکہیں موجود نہیں پاتا۔ جب میں کسی کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کوئی بھی موجود نہیں۔ یہاں تک کہ خود مجھے اپنا وجود گم نظر آتا ہے۔ خدا لامتناہی ہے کوئی شخص اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ اور یہ روحانی تجربے کی آخری حد ہے۔ کوئی بھی ولی اس حد سے آگے نہیں جا سکا”۔

حضرت مجدد الف ثانی نے اس کایوں جواب دیا کہ:

“یہ تجربہ جو بیان کیا گیا ہے اس کا ماخذ ہر لحظہ اپنی حالت بدلتا ہوا قلب ہے۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ تجربے کا حامل قلب کے لاتعداد مقامات میں سے ابھی تک ایک چوتھائی بھی عبورنہیں کر سکا۔ روحانی زندگی کے محض پہلے مقام کو پانے کے لئے باقی تین چوتھائی منازل بھی طے کرنا ضروری ہیں۔ اس مقام سے پرے اور مقامات بھی ہیں جو روح، سرخفی اور سرا خفی کے نام سے معروف ہیں۔ ان میں سے تمام مقامات، جنہیں مجموعی طور پر عالم امر کہتے ہیں،کے اپنے اپنے مخصوص احوال اور واردات ہیں۔ ان مقامات سے گزرنے کے بعد سچائی کا طالب بتدریج خدا کے اسماء حسنیٰ اور صفات الہٰی سے منور ہوتا ہے اور بالآخر ہستی باری تعالیٰ کے نور سے فیضیاب ہوتا ہے”۔ ۱۶؎

حضرت مجدد الف ثانی کے فرمودہ اس اقتباس میں جس بھی نفسیاتی بنیاد پر امتیازات قائم کئے گئے ہیں اس سے ہمیں باطنی تجربے کی پوری کائنات کے بارے میں کچھ نہ کچھ تصور تو ملتا ہے جسے اسلامی تصوف کے ایک عظیم مصلح نے پیش کیا۔ ان کے ارشاد کے مطابق عالم امر یعنی رہنمائی دینے والی توانائی کی دنیا سے گزرنا ضروری ہے تاکہ اس منفرد تجربے تک رسائی حاصل ہو سکے جو وجود حقیقی کا مظہر ہے۔ اسی بنا پر میں کہتا ہوں کہ جدید نفسیات نے ابھی تک اس موضوع کی بیرونی حد کو بھی چھوا تک نہیں۔ ذاتی طور پر میں حیاتیاتی یا نفسیاتی سطح پر تحقیق کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی پرامید نہیں۔ تخیل کے عضویاتی کوائف، جن میں مذہبی زندگی بعض اوقات اپنا اظہار کرتی ہے، کی جزوی تفہیم کی بنا پر محض تجزیاتی تنقید سے ہم انسانی شخصیت کی زندہ جڑوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ جنسی تخیّل مذہب کی تاریخ میں اہم کردار کا حامل ہے یا یہ کہ اس نے زندگی کے حقائق سے گریز یا اس سے موافقت کے تخیلاتی ذرائع مہیا کئے ہیں اس معاملے کے بارے میں اس طرح کے خیالات مذہبی زندگی کے حتمی مقصد کو متاثر نہیں کرتے۔ یہ مقصد ہے اپنی متناہی خودی کو زندگی کے دائمی عمل سے منسلک کرکے اس کی تعمیر نو کرنا اور اسے ایک مابعد الطبیعیاتی مقام دینا جس کا ہم موجودہ گھٹن کی فضا میں ہلکا سا تصور ہی کر سکتے ہیں ۔ اگر نفسیات کا علم نوع انسانی کی زندگی میں عمل دخل کا کوئی حقیقی جواز رکھنے کا خواہش مند ہے تو اسے ہمارے عہد کے ماحول کے مطابق کوئی زیادہ موزوں نئی تکنیک دریافت کرنی ہوگی جو ایک نپے تلے خود مختار منہاج پر مشتمل ہو۔ ایک خبطی جوعالی دماغ بھی ہو___اس طرح کا امتزاج (خبط اور عالی دماغی کا) کوئی ناممکن چیز نہیں___شاید ہمیں اس تکنیک کا کوئی سرا پکڑا سکے۔ آج کے جدید یورپ میں نٹیشے، جس کی زندگی اور سرگرمیاں کم از کم ہم اہل مشرق کے لئے مذہبی نفسیات میں ایک نہایت دلچسپ مسئلے کی تشکیل ہیں، اس قسم کے کسی کام کے لئے موزوں تھا۔ اس کی ذہنی ساخت کی مثالیں مشرقی تصوف کی تاریخ میں بھی ملتی ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اپنے اندر الہیاتی عنصر کا جلوہ اپنے پورے تحکم کے ساتھ اس پر عیاں تھا۔ میں نے اس پر اترنے والی تجلی کے لئے تحکم کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس سے اسے ایک خاص طرح کی پیغمبرانہ بصیرت ملی تھی جو ایک مخصوص قسم کی تکنیک کی بدولت اسے زندگی کی مستقل قوتوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ تاہم نٹیشے ایک ناکام شخص تھا اور اس کی ناکامی کا سبب اس کے فکری پیش رو تھے جن میں شوپن ہار، ڈارون اور لانگے شامل ہیں جن کے اثرات نے اس کی بصیرت کی اہمیت کو اس سے اوجھل رکھا۔بجائے اس کے کہ وہ کسی روحانی اصول کی طرف دیکھتا جس کے مطابق ایک عام آدمی کے اندر بھی الوہیت کا عنصر پیدا ہو سکتا ہے اور یوں وہ ہمارے سامنے کسی لامتناہی مستقبل کے دروازے کھولتا ۱۷؎ نٹیشے نے اپنی بصیرت کی تعبیر ایک انتہائی امارت پسندی کے نظام کی شکل میں دیکھی جیسا کہ میں نے اس کے بارے میں کسی اور مقام پر لکھا ہے:

آنچہ او جوید مقام کبریا ست !
ایں مقام از علم و حکمت ماوراست
خواست تا از آب و گل آید بروں
خوشہ کز کشت دل آید بروں

“اگرچہ وہ مقام کبریا (خدا کی قربت کے اعلیٰ مقام کا متلاشی ہے مگر یہ مقام تو علم و حکمت سے بہت بلند و بالا ہے۔ یہ پوداانسان کی نظر نہ آنے والی دل کی کھیتی میں پیدا ہو تا ہے:اس کی پیدائش محض مٹی کے ڈھیرسے نہیں ہوتی”۔ ۱۸؎

پس (نٹیشے جیسا) ذہین آدمی، جس کی بصیرت مکمل طور پر محض اس کی اندرونی قوتوں کی پروردہ تھی، ناکام ہوگیا اور وہ اس لئے بے ثمر رہ گیا کہ اس کی روحانی زندگی کسی مرد کا مل کی خارجی رہنمائی سے محروم تھی۔ ۱۹؎ ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ یہ آدمی اپنے دوستوں کے سامنے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ کسی ایسے ملک سے آیا ہو جہاں کوئی بھی انسان زندگی نہ کرتا ہو مگر وہ اپنی روحانی احتیاج سے مکمل طور پر آگاہ تھا۔ وہ کہتا ہے:

“صرف مجھے ہی یہ عظیم مسئلہ درپیش ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے میں جنگ میں کھو گیا ہوں جو ازلی جنگ ہے۔ مجھے مدد کی شدید ضرورت ہے۔ مجھے پیرو کار چاہئیں، میں ایک آقا کا متلاشی ہوں جس کی اطاعت میں مجھے لطف محسوس ہو۔” ۲۰؎

اور پھر وہ کہتا ہے:
“مجھے زندہ انسانوں میں ایسے لوگ نظر کیوں نہیں آتے جو مجھ سے بلند دیکھ سکیں اور پھر وہ ان بلندیوں سے نیچے مجھے حقارت سے دیکھیں۔ یہ محض اس وجہ سے ہے کہ میری تلاش میں کوتاہی ہے۔ اور میں ان کے لئے مارا مارا پھرتا ہوں”۔

سچی بات تو یہ ہے کہ مذہب اور سائنس اگرچہ مختلف طریق ہائے کار استعمال میں لاتے ہیں مگر وہ اپنے مقصد و مدعا میں ایک دوسرے سے متماثل ہیں۔ دونوں کا مقصد حقیقت مطلق تک رسائی ہے۔ درحقیقت بعض وجوہات کی بنا پر جن کا میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں، مذہب، سائنس سے کہیں زیادہ اس تک رسائی کا آرزو مند ہے۔ ۲۱؎ اور دونوں کے لئے خالص معروضیت تک رسائی حاصل کرنے کے لئے تجربے کی تطہیر اور چھان بین کی ضرورت ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں تجربے کی دو سطحوں کے مابین امتیاز قائم کرنا چاہئے۔ ایک تجربہ وہ ہے جو حقیقت کے ظاہر، قابل مشاہدہ کردار یا فطری امر واقعہ کا عمومی نقشہ پیش کرتا ہے اور دوسرا وہ جو حقیقت کی باطنی ماہیت کے بارے میں ہمیں اطلاع دیتا ہے۔ ایک فطری امر واقعہ کی حیثیت سے نفسیاتی اور عضویاتی سیاق و سباق کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے جبکہ حقیقت کی باطنی ماہیت کو معلوم کرنے کے لئے ہم اس سے مختلف معیارات کو استعمال کرتے ہیں۔ سائنس کے میدان میں ہم حقیقت کے خارجی کردار کے حوالے سے ہی معانی کی تفہیم حاصل کر سکتے ہیں۔ مذہب کے میدان میں اسے کسی حقیقت کا نمائندہ سمجھ کر اس کے معانی کی دریافت ہم اس لئے کرتے ہیں کہ حقیقت کی باطنی ماہیت کا ادراک کر سکیں۔ سائنسی اور مذہبی طریق کار دونوں گویا ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں۔ دونوں درحقیقت ایک ہی دنیا کی تشریح و تعبیر ہیں۔ ان میں اختلاف یہ ہے کہ سائنسی عمل میں خودی ایک تماشائی کا سا نکتہ نظر رکھتی ہے، جبکہ مذہبی عمل میں خودی اپنے مختلف رجحانات میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے اور ایک یکتا اور منفرد کردار سامنے لاتی ہے جس میں مختلف تجربات مرکب دعویٰ کی صورت میں ایک ہمہ گیر رویے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں روّیوں، جو دراصل ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، کے محتاط مطالعے سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی اپنے اپنے میدان میں تجربے کی تطہیر کا عمل کرتے ہیں۔ ایک مثال میرے مطالب کی واضح طور پر تشریح کرے گی۔ انگلستان کے فلسفی ڈیوڈ ہیوم کی نظریہ علت پر تنقید کو فلسفے کی بجائے سائنس کی تاریخ کا ایک باب سمجھا جانا چاہیے۔ سائنسی حسّیت کی روح کے لحاظ سے یہ درست ہے کہ ہم کسی ایسے تصور پر کام نہیں کر سکتے جو موضوعی نوعیت کا ہو۔ ڈیوڈہیوم کی تنقید کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تجربی سائنس کو ’قوت‘ کے تصور سے رہائی دلائی جائے جس کا حسی تجربے میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ سائنسی عمل کی تطہیر کی جانب جدید ذہن کی یہ پہلی کاوش تھی۔

کائنات کے بارے میں آئن سٹائن کے ریاضیاتی نکتے نے تطہیر کا وہ عمل مکمل کر دیا جس کا ڈیوڈہیوم نے آغاز کیا اور ہیوم کی تنقید کی حقیقی روح کے مطابق اس نے قوت کے تصور سے نجات دلائی۔ ۲۲؎ وہ پیرا گراف جو میں نے ممتاز مسلمان صوفی کے حوالے سے اوپر دیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی نفسیات کا عملی طالب علم بھی تطہیر کے بارے میں ایسا ہی نکتہ نظر رکھتا ہے۔ اس کی معروضی حس بھی اسی طرح انہماک رکھتی ہے جس طرح کا انہماک کوئی سائنس دان اپنے میدان عمل میں رکھتا ہے۔ وہ ایک تجربے کے بعد دوسرے تجربے سے محض ایک تماشائی کے طور پر نہیں گزرتا بلکہ ایک ناقد کا کردار ادا کرتا ہے جو اپنے دائرہ تحقیق سے مخصوص تکنیکی مہارت سے کام لیتے ہوئے اپنے تجربے سے ہر طرح کے نفسیاتی اور عضویاتی موضوعی عناصر ختم کر دیتا ہے تاکہ بالآخر وہ ایک مطلق معروضیت تک پہنچ جائے۔ یہ حتمی اور قطعی تجربہ نئے عمل حیات کا انکشاف ہوتا ہے جو طبع زاد، اساسی اور فوری ہوتا ہے۔ خودی کا حتمی رازیہ ہے کہ جس وقت بھی وہ اس حتمی انکشاف تک پہنچتی ہے وہ اسے بغیر کسی معمولی سی ہچکچاہٹ کے اپنے وجود کی انتہائی اساس کے طور پر شناخت کر لیتی ہے۔ تاہم اس تجربے میں بذاتہ کسی قسم کی کوئی سرّیت نہیں اور نہ ہی جذبات انگیخت کوئی چیز ہے۔ اس تجربے کو جذبات سے محفوظ رکھنے کے لئے یقینا مسلمان صوفیا کی تکنیک یہ رہی ہے کہ انہوں نے بالالتزام عبادت میں موسیقی کے استعمال کو ممنوع قرار دیا اور معمول کی روزانہ پڑھی جانے والی باجماعت نمازوں کی ادائیگی پر زور دیا تاکہ خلوت کے مراقبے سے غیر معاشرتی اثرات کا تدارک ہو سکے۔ یوں یہ تجربہ ایک مکمل طور پرفطری تجربہ ہے اور خودی کے لئے ایک اہم ترین حیاتیاتی جواز کا حامل ہے۔ یہ تجربہ انسانی خودی کی فکر محض سے بلند تر پرواز اور دوامیت کے انکشاف کے ذریعے اپنی نا پائیداری پر قابو پالینے سے عبارت ہے۔ اس مقدس الوہی تلاش میں خودی کو جو واحد خطرہ درپیش ہے وہ اس کی اپنی کوشش میں سست خرامی ہے جواس تجربے میں لطف اندوزی کے سبب پیدا ہوتی ہے کیونکہ آخری تجربے کی طرف بڑھتے وقت مختلف کم تر تجربات اسے جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرقی صوفیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے برصغیر کے اس عظیم صوفی نے اصلاح کی ابتدا کی جس کی تحریر سے میں پہلے ہی اقتباس پیش کر چکا ہوں ۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ خودی کا حتمی مطمع نظرکسی شئے کا دیدار کرنا نہیں بلکہ خود کچھ بننا ہے۔ خودی کی اپنی کوشش کہ وہ کچھ بن جائے اسے یہ موقعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی معروضیت کا زیادہ گہرا ادراک پیدا کرتے ہوئے زیادہ مستحکم بنیاد پر “میں ہوں” کہہ سکے۔ اس ’ میں ہوں‘ کی شہادت اسے ڈیکارٹ کی ’میں سوچتا ہوں‘ میں نہیں بلکہ کانٹ کی ’میںکر سکتا ہوں‘ میں ملتی ہے۔ خودی کی جستجو کی انتہا انفرادیت کی حدودوقیود سے آزادی نہیںبلکہ اس کے برعکس خود اپنی انفرادیت کا صحیح فہم ہے۔ آخری عمل محض عقلی عمل نہیں بلکہ ایک حیاتیاتی عمل ہے جو خودی کے وجود کو اور گہرائی میں لے جاتا ہے اور اس کے ارادے کو اس تخلیقی ایقان سے تیز تر کرتا ہے کہ دنیا محض دیکھنے یا تصورات کے ذریعے جاننے کی چیز نہیں بلکہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم مسلسل عمل سے پیہم تعمیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ خودی کے لئے یہ ایک اعلیٰ روحانی مسرت اور ساتھ ہی ساتھ ابتلا اور آزمائش کا ایک عظیم لمحہ بھی ہے۔

زندۂ یا مردۂ یا جان بلب
از سہ شاہد کن شہادت را طلب
شاہد اول شعورِ خویشتن
خویش را دیدن بنورِ خویشتن
شاہد ثانی شعور دیگرے
خویش را دیدن بنور دیگرے
شاہد ثالت شعور ذاتِ حق
خویش را دیدن بنور ذاتِ حق
پیش ایں نور اربمانی استوار
حیّ و قائم چوں خدا خود را شمار
برمقام خود رسیدن زندگی است
ذات را بے پردہ دیدن زندگی است
مرد مومن درنسازد با صفات
مصطفی راضی نشد اِلاّ بذات
چیست معراج ؟ آرزوئے شاہدے
امتحانے رو بروئے شاہدے
شاہد عادل کہ بے تصدیقِ او
زندگی ما را چو گل را رنگ و بو
در حضورش کس نماند استوار
ور بماند ہست او کامل عیار
ذرئہ از کف مدہ تابے کہ ہست
پختہ گیر اندر گرہ تابے کہ ہست
تابِ خود را بر فزودن خوشتر است
پیشِ خورشید آزمودن خوشتر است
پیکرِ فرسودہ را دیگر تراش
امتحانِ خویش کن ’موجود‘ باش
ایں چنیں “موجود” محمود است و بس
ورنہ نار زندگی دودِ است و بس ۲۳؎
(جاوید نامہ)

<<پچھلا  اگلا>>

کیا مذہب کا امکان ہے؟

کیا مذہب کا امکان ہے؟


دیگر زبانیں
English
اردو

logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان