www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

مندرجات

ابتدائیہ
علم اور مذہبی مشاہدہ
مذہبی واردات کے انکشافات کا...
خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم
انسانی خودی اس کی آزادی اور...
مسلم ثقافت کی روح
اسلام میں حرکت کا اُصول
کیا مذہب کا امکان ہے؟
حواشی و حوالہ جات
Quranic Index


دیگر زبانیں

اسلام میں حرکت کا اُصول

"اسلامی فکر کے تمام ڈانڈے ایک متحرک کائنا ت کے تصور سے آ ملتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر ابن مسکویہ کے ارتقائی حرکت پر مبنی نظریۂ حیات اور ابن خلدون کے تصور تاریخ سے مزید تقویت پاتا ہے"
اقبالؒ

"حضرت محمد مصطفٰی ﷺ بلند ترین آسمان پر تشریف لے گئے اور واپس پلٹ آئے"۔ "خدا کی قسم اگر میں وہاں جاتا تو کبھی واپس نہ آتا۔" ۱؎ یہ الفاظ عظیم مسلم صوفی عبدالقدوس گنگوہی کے ہیں۔(الف) غالباً پورے صوفیانہ ادب میں پیغمبرانہ ادراک اور صوفیانہ شعور میں موجود واضح نفسیاتی فرق کو ایک جملے میں ادا کرنے کی کوئی اور نظیر ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی۔ صوفی نہیں چاہتا کہ وہ اس واردات اتحاد کی لذت اور سکون سے واپس لوٹے۔ اور جب وہ کبھی لوٹتابھی ہے__ اور اسے لوٹنا پڑتا ہے__ اس کی واپسی نوع انسانی کے لیے کوئی بڑا مفہوم نہیں رکھتی۔ نبی کی واپسی تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ اس لیے لوٹتا ہے کہ زماں کی قلمرو میں داخل ہو اور تاریخ کی قوتوں کو قابو میں رکھتے ہوئے مقاصد کی تازہ دنیا تخلیق کرے۔صوفی کے لیے اتحاد کی لذت اس کی آخری منزل ہے مگر نبی کے لیے یہ تجربہ اپنے آپ میں دنیا کو ہلا دینے والی نفسیاتی قوتوںکو بیدار کرنے کا عمل ہے جس سے عالم انسانیت کو مکمل طور پر تبدیل کیاجا سکے۔ یہ خواہش کہ اس کا مذہبی تجربہ ایک زندہ عالمگیر قوت میںتبدیل ہو جائے، نبی میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کی واپسی اس کے روحانی تجربے کی قدر و قیمت کے لیے ایک طرح کا نتائجی معیار بن جاتی ہے۔ اپنے تخلیقی عمل میں نبی کی قوت ارادی اپنا اور محسوس حقائق کی دنیا کا بھی جائزہ لیتی ہے جس میں وہ اپنے آپ کا معروضی طور پر اظہار کرتی ہے۔ اپنے سامنے موجود غیر اثر پذیر مادے میں نفوذ سے پہلے وہ خود کو خود اپنے لئے دریافت کرتا ہے اور پھر تاریخ کی آنکھ کے سامنے خود کو ظاہر کرتا ہے۔ نبی کے مذہبی تجربے کی قدر کو پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اُس انسان کو دیکھا جائے جو اس نے تیار کیا اور اُس تہذیب و تمدن کو دیکھا جائے جو اس کے پیغام کی روح کو اپنانے کے بعد وجود میں آئی۔ اس خطبے میں اسی دوسرے پہلو پر ہی میں اپنی توجہ مرکوز رکھوں گا۔ میرا مقصد علم کی دنیا میں اسلام کی کامیابیوں کا بیان ہرگز نہیں۔ اس کے برعکس میں آپ کی توجہ اسلامی ثقافت کے رہنما تصورات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں تاکہ وہ بصیرت پیدا ہو جس سے ہم ان تصورات کے بنیادی فکر کے خطوط کو سمجھ سکیں اور اُس روح کی جھلک دیکھ سکیں جس نے ان میں اپنا اظہار کیا۔ تاہم پیشتر اس کے کہ میںایسا کروں یہ ضروری ہے کہ ہم اسلام کے ایک عظیم تصور کی ثقافتی قدروقیمت کا ادراک حاصل کریں۔ میری مراد ہے عقیدہ ختم نبوت۔ ۲؎

نبی کی تعریف یوں ہو سکتی ہے کہ وہ ایک طرح کا صوفیانہ شعور ہے جس میں وصل کا تجربہ اپنی حدود سے تجاوز کا رجحان رکھتا ہے اور ایسے مواقع کا متلاشی رہتا ہے جن میں اجتماعی زندگی کی قوتوںکو نئی تازگی اور نیا رخ دیا جا سکے۔ اس کی شخصیت میں زندگی کا متناہی مرکز اس کی اپنی لا متناہی گہرائی میں ڈوب کر دوبارہ نئی تازگی کے ساتھ ابھرتا ہے تاکہ فرسودہ ماضی کو ختم کر دے اور زندگی کی نئی جہات کو منکشف کرے۔ اس کا اپنی ہستی کی جڑوں سے اس طرح کا رابطہ انسان سے کسی طرح بھی مخصوص نہیں۔ یقینا جس طریقے سے قرآن میں 'وحی' کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اسے عالمگیر خاصۂ زیست کے طور پر بیان کرتا ہے ۳؎ اگرچہ زندگی کے ارتقا کے مختلف مدارج پر اس کے کردار کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ پودے فضا میں آزادانہ اُگتے بڑھتے ہیں' حیوانات کے اعضا ماحول کی موزونیت سے نشوونما پاتے ہیں اور انسان زندگی کے باطن سے روشنی پاتے ہیں۔ یہ تمام وحی کی مختلف مثالیں ہیں جو اپنے کرداروں میں مختلف ہیں۔ وحی کے کردار کا تعین وحی وصول کرنے والی شے کی ضرورت اور نوعیت کے مطابق ہوتا ہے یا اس نوع کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے جن پر وحی ہوتی ہے۔ نوع انسانی کے عہد طفولیت میں وہ نفسیاتی توانائی فروغ پاتی ہے جسے میں شعور نبوت کہتا ہوں۔ یہ انفرادی سوچ اور انتخاب کا ایک کفایتی رجحان ہے تاکہ بنے بنائے فیصلے انتخاب اور طریق ہائے عمل میسر آ سکیں۔ تاہم استدلال اور تنقیدکی صلاحیت کی آفرینش کے ساتھ ہی زندگی اپنے مفاد کی خاطر شعور کے ورائے عقل ان طریقوں کی پیدائش اور صورت گری روک دیتی ہے جن میں انسانی ارتقا کی ابتدائی منازل پر نفسیاتی توانائی کا اظہار ہوتا تھا۔ انسان پر ابتدائی سطح پر جبلت اور جذبات حکمرانی کرتے ہیں۔ استقرائی عقل تنہا وہ ذریعہ ہے جس سے وہ ماحول پر تسلط حاصل کرتا ہے۔ یہ کامیابی کی ایک علامت ہے۔ جب ایک دفعہ یہ پیدا ہو جائے تو پھر دوسرے ذریعہ ہائے علم کو رک جانا چاہیے تاکہ یہ مزید مستحکم ہو سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیائے قدیم نے ایک وقت میںبعض بہت بڑے فلسفیانہ نظام پیش کئے' جبکہ انسان اپنی ابتدائی منازل پر تھا اور اس پر کم و بیش روایات کا غلبہ تھا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پرانی دنیا میں یہ نظام بندی مجرد فکر کا نتیجہ تھی' جو مبہم مذہبی اعتقادات اور روایات کی ترتیب و تنظیم سے آگے نہیں جا سکتی اور اس سے ہمیں زندگی کے ٹھوس حقائق پر گرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔

اس معاملہ پر اس نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو ہمیں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ قدیم اور جدید دنیائوں کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک آپؐ کی وحی کے منابع کا تعلق ہے آپ کا تعلق قدیم دنیا سے ہے۔ جہاں تک اس وحی کی روح کا تعلق ہے آپ کا تعلق دنیائے جدید سے ہے۔ آپ میں زندگی نے علم کے کچھ دوسرے ذرائع کو دریافت کرلیا جو نئی سمتوں کے لیے موزوں تھے۔ اسلام کی آفرنیش' عقل استقرائی کی آفرینش ہے۔ اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچی ہے کیونکہ اس نے اپنے ہی خاتمے کی ضرورت کو محسوس کر لیا ہے۔ ۴؎ اس میں یہ ادراک گہرے طور پر موجود ہے کہ زندگی کو ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے پر نہیں رکھا جا سکتا اور یہ کہ ایک مکمل خود شعوری حاصل کرنے کے لیے انسان کو بالآخر اس کے اپنے وسائل کی طرف موڑ دینا چاہیے۔ اسلام میں پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ قرآن میں استدلال اور عقل پر مسلسل اصرار اور اس کا باربار فطرت اور تاریخ کے مطالعے کو انسانی علم کا ذریعہ قرار دینا' ان سب کا تصور ختم نبوت کے مختلف پہلوئوں سے گہرا تعلق ہے۔ اس صورت حال کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ شعور ولایت جو کیفیت کے اعتبار سے نبی کے تجربے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں اب ایک موثر قوت کے طور پر ختم ہو گیا ہے۔ یقیناً قرآن انفس اور آفاق کو علم کے منابع کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ۵؎ خدا اپنی آیات (نشا نیوں) کو باطنی اور ظاہری دونوں تجربات میں عیاں کرتا ہے اور یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ تجربے کے ان تمام پہلوئوں کی صلاحیتوں کو پرکھے جو افزائش علم کا باعث ہیں۔ چنانچہ ختم نبوت کے تصور کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ زندگی کی حتمی تقدیر یہ ہے کہ عقل مکمل طور پر جذبات کی جگہ لے لے۔ یہ چیز نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی یہ مطلوب ہے۔ تصور ختم نبوت کی عقلی اہمیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ صوفیانہ تجربے کے بارے میں ایک آزادانہ تنقیدی روّیے کو پروان چڑھایا جائے کیونکہ انسانی فکر کی تاریخ میں اب ہر قسم کا شخصی تحکم جو کسی مافوق الفطرت سرچشمے کا دعویٰ کرتا ہے ختم ہوچکا ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ ایک نفسیاتی قوت ہے جو ایسے تحکم کی نفی کرتی ہے۔ اس تصور کا وظیفہ انسان کے باطنی تجربے کی حدود میںتازہ مظاہر علم کا درکھولنا ہے۔ ۶؎ جیساکہ اسلام کے کلمہ توحید کے نصف اوّل میں فطرت کی قوتوں کو قدیم تہذیبوں کے روّیے کے علی الرغم الوہیت کا رنگ دینے سے احتراز کرتے ہوئے انسان میں خارجی دنیا کے تنقیدی مشاہدے کی روح کو تخلیق کیاگیا ہے ۔ چنانچہ صوفیانہ واردات کیسی ہی غیر معمولی کیوں نہ ہوں وہ ایک مسلمان کے لیے مکمل طور پر طبیعی اور فطری تجربہ ہیں جو اسی طرح تنقیدی تجزیے کے لیے کھلا ہے جس طرح انسانی تجربے کے بہت سے دوسرے پہلو۔ یہ بات پیغمبر اسلام ﷺ کے اپنے اس رویے سے بھی عیاں ہے جو خود انہوں نے ابن صیاد کے نفسیاتی تجربوں کے بارے میں اپنایا۔ اسلام میں تصوف کا وظیفہ یہ رہا ہے کہ وہ صوفیانہ تجربے کو ایک نظم میںلائے ۔ ۷؎ اگرچہ یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے کہ ابن خلدون وہ واحد مسلمان مفکر ہے جس نے اس طرف مکمل سائنسی انداز میں توجہ مبذول کی ہے۔ ۸؎

تاہم باطنی تجربہ انسانی علم کا محض ایک ذریعہ ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق علم کے دو دیگر ذرائع بھی موجود ہیں: فطرت اور تاریخ ۔ ان دو ذرائع علم سے استفادہ کی بنا پر ہی اسلام کی روح اپنے اعلی مقام پر دکھائی دیتی رہی ہے۔ قرآن حقیقت اعلیٰ کی نشانیاں سورج میں دیکھتا ہے، چاند میں دیکھتا ہے، سایوں کے گھٹنے اور بڑھنے اور دن اور رات کے آنے جانے میں دیکھتا ہے، انسانوں کے مختلف رنگ و نسل اور زبانوں کے تنوع میں اور مختلف اقوام کے عروج و زوال اور دنوں کے الٹ پھیر میں دیکھتا ہے۔ ۹؎ درحقیقت فطرت کے تمام مظاہر میںدیکھتا ہے جو انسان کے حسی ادراک پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان نشانیوں پر غورو فکرکرے اور ان سے ایک اندھے اور بہرے انسان کی طرح اعراض نہ کرے۔ کیونکہ وہ انسان جو ان آیات الٰہی کو اپنی اس زندگی میں نہیں دیکھتا وہ آنے والی زندگی کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ زندگی کے ٹھوس حقائق کے مشاہدے کی اس دعوت اور نتیجۃً آہستہ آہستہ پیدا ہونے والے اس احساس سے کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق کائنات اپنی اصل میں حرکی اورمتناہی ہے اور فروغ پذیری کی صلاحیت رکھتی ہے مسلم مفکرین اور اس یونانی فکر کے درمیان کشمکش کی کیفیت پیدا ہوئی جس کا انہوں نے اپنی فکری تاریخ کی ابتداء میں بڑے انہماک سے مطالعہ کیا تھا۔ اس بات کا اداراک نہ کرتے ہوئے کہ قرآن کی روح اساسی طور پر یونان کی کلاسیکی فکر کے خلاف ہے اوریونانی مفکرین پر پورے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مسلم فلاسفہ کی پہلی کوشش یہی رہی کہ وہ فکر یونان کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں۔ اس طرز فکر نے تو ناکام ہونا ہی تھا کیونکہ قرآن کی ٹھوس روح کے برعکس یونانی فکر کی نوعیت محض تصوراتی ہے جو حقیقت الامرکی بجائے نظریے پر زیادہ زور دیتی ہے۔ اس ناکامی کے نتیجے میں ہی ان کے اندر اسلامی ثقافت کی اصل روح بیدار ہوئی جس سے جدید عصری ثقافت کے بعض نہایت اہم پہلوئوں کو خشت اوّل میسر آئی۔

یونانی فلسفے کے خلاف اس عقلی بغاوت نے فکر کے دوسرے تمام شعبوں میں اپنے آپ کو ظاہر کیا۔ مجھے احساس ہے کہ میںاتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ میں ریاضی' فلکیات اور طب میں ہونے والی اس بغاوت کے اثرات کو نمایاں کر سکوں۔ یہ اشاعرہ کے مابعد الطبیعیاتی افکار میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر یہ زیادہ واضح طور پر یونانی منطق پر مسلمانوں کی تنقید میں نظر آتی ہے۔ یہ بالکل فطری تھا کیونکہ خالص ظنّی فلسفے سے غیر مطمئن ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی زیادہ قابل اعتماد ذریعہ علم کی تلاش کی جائے۔ میرے خیال میں یہ نظام تھا جس نے سب سے پہلے تشکیک کے اصول کو تمام علوم کے آغاز کے لیے بنیاد کے طور پر وضع کیا۔ ۱۰؎ غزالی نے اپنی کتاب "احیاء علوم الدین " میں اس اصول کو مزید وسعت دی اور ڈیکارٹ کے طریق تشکیک کے لئے راستہ ہموار کیا۔ مگر منطق میں عمومی طور پر غزالی نے ارسطو کی منطق کی پیروی کی۔"قسطاس" میں موصوف نے قرآن کے کچھ دلائل کو ارسطوئی منطق کی اشکال میں پیش کیا ہے ۱۱؎ اور قرآن کی سورہ الشعرا کو بھول گئے کہ جہاں اس قضیے کے لئے کہ انبیاء کی تکذیب سے عذاب لازم آتا ہے تاریخی امثال کے حوالے سے استدلال کیا گیا ہے۔ یہ اشراقی اور ابن تیمیہ تھے جنہوں نے یونانی منطق کا نہایت منظم طریقے سے ابطال کیا ۱۲؎ غالباً ابوبکر رازی وہ پہلا شخص ہے جس نے ارسطو کی "شکل اوّل" پر تنقید کی۔ ۱۳؎ ہمارے اپنے زمانے میں اس کے اعتراض کو خالصتہً استقرائی انداز میں لیتے ہوئے جان سٹوارٹ مل نے ازسرنو دہرایا ہے۔ ابن حزم نے اپنی کتاب "منطق کی حدود" ۱۴؎ میں حسی اوراک پر علم کے ذریعے کے طور پر اصرار کیا ہے اور ابن تیمیہ نے اپنی کتاب "الرّدعلی المنطقیین" میں کہا ہے کہ استقراہی وہ واحد صورت ہے جسے علم کا قابل اعتماد ذریعہ کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح مشاہدے اور تجربے کا طریق سامنے آیا۔ یہ محض ایک نظری بحث نہیں تھی۔ البیرونی کی دریافت، جسے ہم 'ردّعمل کا وقت' کہتے ہیں اور الکندی کی یہ دریافت کہ احساس مہیج کے تناسب سے ہوتا ہے وہ مثالیں ہیں جو اس طریق کار کے نفسیات میں اطلاق پر مشتمل ہیں۔ ۱۵؎ یہ خیال کرنا غلط فہمی پر مبنی ہے کہ تجربی طریق اہل یورپ نے دریافت کیا تھا ۔ ڈوہرنگ ہمیں بتاتا ہے کہ روجربیکن کے تصورات سائنس اپنے ہم نام فرانسس بیکن کے تصورات سے کہیں زیادہ قطعی اور واضح تھے۔ اب یہ کہ روجر بیکن نے اپنی سائنسی تعلیم کہاں سے حاصل کی تو اس کا واضح جواب ہے کہ اندلس کی اسلامی درس گاہوں سے۔ روجر بیکن کی کتاب "اوپس ماژس" (Opusmajus) کے پانچویں باب میں مرایا کی جو بحث ہے وہ ابن الہیثم کے باب بصریات کی نقل ہے۔ ۱۶؎ یہ کتاب مجموعی طور پر مصنف پر ابن حزم کے اثرات کی شہادتوں سے خالی نہیں ہے۔ ۱۷؎ یورپ کو اپنے سائنسی طریق کا رکے اسلامی مآخذ کو تسلیم کرنے میں تامل رہا ہے' تاہم بالآخر تسلیم کرنا ہی پڑا۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں یہاں رابرٹ بریفالٹ کی کتاب "تشکیل انسانیت" سے ایک دو پیرے نقل کروں۔

…آکسفورڈ سکول میں ان کے جانشینوں کے زیر اثر روجربیکن نے عربی زبان اور عربی علوم و حکمت کا مطالعہ کیا ہے۔ خواہ روجر بیکن ہو یا اس کے بعد پیدا ہونے والا اس کا ہم نام دونوں میں سے کوئی بھی تجربی طریق کے معلم اوّل کا خطاب پانے کا مستحق نہیں ہے۔ روجر بیکن کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ اُس کا شمار مسیحی یورپ کے لئے اسلامی علوم اور طریق کار کے مبلغین میں ہوتا ہے۔ وہ یہ اعلان کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا کہ اس کے ہم عصروں کے لیے عربی زبان اور عربی سائنس ہی حقیقی علم کا واحد راستہ ہے۔ تجربی علم کا معلم اوّل کون تھا؟ اس موضوع پر جو بحثیں ہوئیں وہ مغربی تمدن کی آفرینش سے متعلق زبردست مبالغہ آرائی کے ابواب ہیں۔ بیکن کے عہد تک عربوں کا تجربی طریقہ سارے یورپ میں پھیل چکا تھا اور بڑے ذوق و شوق سے لوگ اس کی طرف مائل تھے۔ (ص ص ۲۰۰۔۲۰۱)

معاصر دنیا کے لیے عربی تمدن کا سب سے مہتم بالشان عطیہ سائنس ہے۔ لیکن اس کے پھلوں کے پکنے میں کافی دیر لگی۔ اندلسی تمدن کے غار تاریکی میں ڈوبنے کے بہت بعد جس سائنس کے دیو کو اس نے جنم دیا تھا وہ بھرپور توانائی کے ساتھ نمودار ہوا۔ تنہا سائنس ہی کی وجہ سے یورپ میں زندگی کی لہریں پیدا نہیں ہوئیں۔ اسلامی تمدن کے دوسرے کثیر النوع اثرات ہیں جن کی بدولت یورپ میں زندگی کی روشنی نمودار ہوئی (ص ۲۰۲)

اگرچہ مغربی ترقی کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے جس پر اسلامی تمدن کے فیصلہ کن اثرات نمایاں نہ ہوں۔ اس کی توانائی کے اصل الاصول یعنی طبیعی سائنس اور سائنسی اصول کے میدان میں جتنا واضح اور مہتم بالشان اثر ہے ویسا اور کہیں نظر نہیں آتا اور یہی وہ اثر ہے جس پر عصری دنیا کی مستقل امتیازی قوت اور فتوحات عظیم کے وسائل کا انحصار ہے (ص ۱۹۰)

ہماری سائنس پر عربوں کا احسان محض انقلاب آفرین نظریات کے چونکا دینے والے انکشافات پر ہی مبنی نہیں ہے بلکہ سائنس پر عربی تمدن کا قرض اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کا وجود ہی عربوں کا مرہون منّت ہے۔ قدیم عہد کے بارے میں ہم سب جان چکے کہ وہ قبل سائنسی عہد ہے۔ یونانیوں کے فلکیات و ریاضی کے علوم ممالک غیر سے لائے ہوئے تھے اور یونانی تمدن کی زمین میں ان کی جڑیں کبھی پیوست نہیں ہوئی تھیں۔ یونانیوں نے ترتیب و تعمیم و تاسیسِ نظریات کا کام کیا لیکن تجسس کا صبر آزما عمل، مثبت علم کا ارتکاز' سائنس کے باریک بین طریق ہائے کار' تفصیلی اور دیر طلب مشاہدہ اور تجربی تحقیق، ان سب سے یونانی مزاج قطعی نا آشنا تھا۔ کلاسیکی دنیا میں یونان کا صرف ایک شہر اسکندریہ تھا جہاں کسی طور سائنسی علوم تک رسائی پانے کی کوشش ہوئی تھی۔ ہم جسے سائنس کہتے ہیں اس کی یورپ میں نمود کا باعث تحقیق کی ایک نئی روح' تجسس کے نئے ضوابط' تجربی طریقہ استدلال' مشاہدہ' پیمائش اور علم ریاضی کی وہ ہیئت تھی جن کا یونانیوں کو قطعی علم نہیں تھا۔ مغربی دنیا میں اس روح اور ان طریق ہائے کار کا تعارف عربوں نے کرایا۔ (ص ۱۹۱)

مسلم ثقافت کی روح کے بارے میں پہلی اہم چیز جو غور طلب ہے وہ علم کے حصول کے مقصد میں ٹھوس اور متناہی پر توجہ مرتکز رکھنا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اسلام میں مشاہدے اور تجربے کے طریق کار کی آفرینش یونانی فکر سے موافقت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس سے مسلسل عقلی جنگ کا حاصل تھا۔ درحقیقت، جیسا کہ رابرٹ بریفالٹ کہتا ہے، یونانیوں کی زیادہ تر دلچسپی نظریات میں تھی نہ کہ حقائق میں۔ اس سے مسلمانوں کی قرآن کے بارے میں بصیرت دھندلا گئی۔ نتیجۃً عربوں کے عملی مزاج کو اپنی اصل کی طرف لوٹنے میں کم از کم دو صدیاں لگ گئیں۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میں اس غلط فہمی کو دور کر دوں کہ یونانی فکر نے کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کی ثقافت کو متعین و مدّون کرنے میں کوئی حصہ لیا۔ میری دلیل کے ایک رخ کو تو آپ پہلے ہی ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اب آپ دوسرا رخ ملاحظہ کریں گے۔

علم کے آغاز کا لازمی طور پر تعلق ٹھوس اشیاء سے ہے۔ یہ ٹھوس اشیا پر حاوی قوت اور عقلی گرفت ہے جو انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ٹھوس اشیا سے آگے بڑھ سکے۔ جیسا کہ قرآن حکیم کا فرمان ہے۔

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ أَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوْ لاَ تَنْفُذُوْنَ إِلاَّ بِسُلْطٰانٍ (۳۳:۵۵)
اے گروہ جن و انسان اگر تم قوت رکھتے ہو تو تم آسمانوں اور زمینوں کے دائرے سے باہر نکل جائو۔ مگر تم بغیر "سلطان" کے ایسا نہیں کر سکتے

لیکن کائنات جو متناہی اشیا کے مجموعے پر مشتمل ہے ہمیں کچھ اس قسم کے جزیرے کی مانند دکھائی دیتی ہے جو محض ایک خلا میں واقع ہے جس کے لیے وقت باہم دگر منفرد آنات کے ایک سلسلے کی حیثیت سے زیادہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کا کوئی مصرف ہے۔ کائنات کے بارے میں اس طرح کا تصور ذہن کو کہاں لے جائے گا۔ مرئی زمان و مکان کے بارے میں یہ سوچ کہ یہ محدود ہیں ذہن کو اُلجھا دے گی۔ متناہیت ایک بت کی طرح ہے جو ذہن کی حرکت اور اس کے ارتقا میں ایک رکاوٹ ہے۔ یا پھر یہ کہ اپنی حدود سے باہر نکلنے کے لئے ذہن کو زمان متسلسل اور مکان مرئی کی خلائیت محض سے آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ قرآن کے فرمان کے مطابق 'آخری حد تو خدا کی طرف ہی ہے' ۱۸؎ یہ آیت قرآن کے ایک انتہائی گہرے خیال کو سموئے ہوئے ہے کیونکہ اس سے لازمی طور پر اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس کی آخری حد ستاروں کی جانب نہیں بلکہ لامحدود حیات کونی اور روحانیت کی جانب تلاش کرنی چاہیے۔ اب اس مطلق حد کی طرف عقلی مسافرت ایک لمبا اور مشکل عمل ہے۔ اس ضمن میں بھی مسلمانوں کی فکری کوششیں یونانیوں سے بالکل ہی مختلف سمت میں متحرک ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ہمیں اشپنگلر بتاتا ہے یونانیوں کا آئیڈل تناسب تھا، لامتناہیت ان کا مسئلہ نہ تھا۔ اپنی واضح حدود کے ساتھ متناہی کی طبیعی موجودگی نے ہی یونانی ذہن کو مکمل طور پر گرفت میں لے رکھا تھا۔ دوسری جانب مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ میں عقل محض اور مذہبی نفسیات (اس اصطلاح سے میری مراد اعلیٰ تصوف ہے) دونوں کا مدعا یہ ہے کہ لامتناہی کو حاصل کیا جائے اور اس سے لطف اندوز ہوا جائے۔ زمان و مکان کا مسئلہ ایسی ثقافت میں زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ میں نے ان خطبات میں سے ایک میں پہلے ہی مسلمان مفکرین خاص طور پر اشاعرہ کا زمان و مکان کے مسئلہ پر نکتہ نظر پیش کیا ہے۔ ویمو قریطس کے جوہری نظریات کو اسلامی دنیا میں جو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اس کا ایک سبب اس کا مکان مطلق کا مفروضہ ہے۔ چنانچہ اشاعرہ نے ایک مختلف نوعیت کی جوہریت کو پروان چڑھایا اور انہوں نے مکان مدرکہ کی مشکلات پر قابو پانے کی کوششیں کیں جس طرح کہ جوہریت جدیدہ میں اس قسم کی مساعی ہوئی ہیں۔ ریاضی کے میدان میں بطلیموس (۸۷۵- ۱۶۵ قبل مسیح) سے نصیرالدین طوسی (۱۲۷۴- ۱۲۰۱ عیسوی) تک کسی نے بھی اس جانب بھرپور توجہ نہیں دی کہ اقلیدس کے پیش کردہ متوازیت کے مفروضے کو مکانِ مدرکہ کی بنیاد پر ثابت کرنے میں کیا مشکلات درپیش ہیں۔ ۱۹؎ نصیر الدین طوسی وہ مفکر ہے' جس نے پہلی بار اس خاموشی کو توڑا جو ریاضی کی دنیا میں گذشتہ ایک ہزار سال سے چھائی ہوئی تھی۔ اس مفروضے کو بہتر بنانے کی کوشش میںاسے مکان مرئی کے تصور کو چھوڑ دینے کی ضرورت کا احساس ہوا۔ یوں اس نے ایک اساس فراہم کی، گرچہ یہ کیسی ہی معمولی تھی' جس پر ہمارے عہد کے مختلف الجہات حرکت کے خیال کی عمارت استوار ہوئی۔ ۲۰؎ مگر یہ ابو ریحان البیرونی تھا جس نے جدید ریاضی کے تصور تفاعل تک جانے کی کوشش میں ایک خالص سائنسی نکتہ نظر سے کائنات کے سکونی نظریے کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ یہ بھی یونانی تصور سے واضح اختلاف کی ایک صورت ہے۔ تفاعل کا یہ تصور کائنات کی تصویر میں وقت کے عنصر کو شامل کرتا ہے۔ یہ متعین کو متغیر قرار دیتا ہے اور کائنات کو ایک کونی شے کی بجائے تکوینی شے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اشپنگلر کا خیال ہے کہ ریاضی کا تفاعلی نظریہ مغرب کا دریافت کردہ ہے جس کا کسی اور تمدن یا ثقافت میں ایک اشارہ بھی نہیں ملتا۔ نیوٹن نے جو ادراج کا فارمولا پیش کیا تھا ۲۱؎ البیرونی نے اس کی تعمیر کرکے جو اس کو تکونی تفاعل کے علاوہ ہر قسم کے تفاعل پر لاگو کیا تھا ۲۲؎ تو اس سے اشپنگلر کا دعویٰ باطل قرار پاتا ہے۔ عدد کے بارے میں اہل یونان کے تصورکمیت کے محض تصور نسبت خالص میںبدلنے کا آغاز الخوارزمی کی اس تحریک سے ہوا جس سے حساب کے علم کا رخ الجبرا کی طرف مڑ گیا۔ ۲۳؎ البیرونی نے اس سمت بھی واضح پیش رفت کی' جسے اشپنگلر تقویمی عدد کے نام سے بیان کرتا ہے اور جو ذہن کی کونیت سے تکوین کی جانب سفر کی نشاندہی کرتا ہے۔ یقیناً یورپ میں ریاضی میں ہونے والی نئی تحقیقات سے وقت اپنے تاریخی کردار کو کھو چکا ہے اور یہ مکان ہی کی ایک شکل میں تحویل ہو کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہیڈ کا نظریہ اضافیت مسلمان طلباء کے لئے آئن شٹائن کے نظریہ اضافیت سے زیادہ پُرکشش ہو گا جس کے مطابق زمان اپنا دوران کا کردار کھو کر پراسرار طور پر مکان محض کی صورت میں ہی ڈھل جاتا ہے۔

اسلام میں ریاضیاتی فکر کی ترقی کے ساتھ ساتھ ارتقا کا نظریہ بھی ہمیں بتدریج اپنی صورت گری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جاحظ وہ پہلا شخص ہے جس نے پرندوں کی زندگی میں نقل مکانی کی بنا پر تبدیلی نوٹ کی۔ اس کے بعد ابن مسکویہ نے، جو ابو ریحان البیرونی کا ہم عصر تھا ، اس نظریے کو ایک شکل دی اور الٰہیات کے موضوع پر اپنی تصنیف الفوز الاصغر میں اسے اپنایا۔ میں اس کے نظریہ ارتقا کے مفروضے کا خلاصہ یہاں بیان کروں گا: اس کی سائنسی اہمیت کی بنا پر نہیں بلکہ اس لیے کہ ہم دیکھ سکیں کہ مسلم فکر کی حرکت کس سمت میں بڑھ رہی تھی۔

ابن مسکویہ کے مطابق نباتاتی زندگی بالکل ہی ابتدائی سطح پر اپنے نمو کے لیے بیج کی محتاج نہیں اور نہ ہی محض بیجوں کے ذریعے اس کی انواع کا تسلسل ہوتا ہے۔ اس طرح کی نباتاتی زندگی کا معدنی یا جمادی اشیا سے یہی فرق ہے کہ نباتاتی زندگی میں تھوڑی سی حرکت کی طاقت ہوتی ہے جو اعلیٰ مدارج میں مزید بڑھ جاتی ہے جب پودا اپنی شاخیں پھیلاتا ہے اور بیج کے ذریعے اپنی نوع کا تسلسل قائم رکھتا ہے۔ حرکت کی قوت جب آہستہ آہستہ مزید بڑھتی ہے تو ہم درختوں کو دیکھتے ہیں کہ جو تنے' پتے اور پھل رکھتے ہیں۔ نباتاتی زندگی اپنے ارتقا کی اعلیٰ سطح تک بڑھنے کے لیے عمدہ زرخیز زمین اور مناسب موسم کا تقاضا کرتی ہے۔ نباتاتی زندگی اپنی اعلیٰ ترین صورت میں انگور اورکھجور کے درختوں میں نظر آتی ہے جس کے بعد حیوانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ کھجور کے درخت میں جنسی امتیاز بھی واضح طور پر موجود ہو جاتا ہے۔ اس میں جڑوں اور ریشوں کے ساتھ ساتھ وہ شے بھی نشوونما پالیتی ہے جس کا وظیفہ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا دماغ کا اور جس کی صحت پر اس کے حفظ و بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ کھجور نباتاتی زندگی کی اعلٰی ترین سطح اور حیوانی زندگی کا ابتدائیہ ہے۔ حیوانی زندگی کی ابتدا یہاں سے ہوتی ہے کہ زندگی زمین پیوستگی سے آزاد ہوجاتی ہے اور اس سے شعوری حرکت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ حیوانی زندگی کی ابتدائی سطح ہے جس میں سب سے پہلے چھونے کی حس اور آخری سطح میں دیکھنے کی حس پیدا ہوتی ہے۔ حواس کی آفرینش سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے جیسا کہ کیڑوں' رینگنے والے جانوروں' چیونٹیوں اور مکھیوں میں ۔ حیوانی زندگی کی تکمیل چوپائیوں میں گھوڑے اور پرندوں میں عقاب کی صورت میں ہوتی ہے اور آخر میں حیوانی زندگی کا ارتقا بوزنوں اور بن مانسوں کی صورت میں ہوتا ہے' جو انسان کے درجے سے ذرا سا نیچے ہوتے ہیں۔ ارتقا کی اگلی منزل پر ایسی عضویاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ انسان کی قوتِ تمیز اور روحانیت بڑھتی ہے حتیٰ کہ وہ دور بربریت سے تہذیب کی طرف قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ ۲۴؎

مگر یہ درحقیقت مذہبی نفسیات ہے' جیسا کہ عراقی اور خواجہ محمد پارسا کے ہاں نظر آتا ہے، ۲۵؎ جو ہمیں زمان کے مسئلے پر دور جدید کے انداز نظر کے قریب تر لے آتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں عراقی کا وقت کا تصور طبقاتی ہے۔ ۲۶؎ اب میں ذیل میں مکاں کے بارے میں اس کے نقطہ نظر کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔

عراقی کے نقطہ نظر کے مطابق خدا کے حوالے سے مکان کی ایک خاص قسم کا وجود قرآن کی ان آیات سے واضح ہوتا ہے۔
أَ لَمْ تَرَ أَنَّ اﷲَ یَعْلَمُ مَا فَی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مَایَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَیٰ ثَلٰثَۃٍ إِلاَّ ھُوَرَابِعُھُمْ وَلاَ خَمْسَۃٍ إِلاَّ ھُوَسَادِسُھُمْ وَلآَ أَدْنَیٰ مِنْ ذٰلِکَ وَلآَ اَکْثَرَإِلاَّ ھُوَمَعَھُمْ أَیْنَ مَاکَانُوْا (۷:۵۸)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں پوشیدہ ہے۔ کوئی راز دارا نہ گفتگو تین آدمیوں میں ایسی نہیں ہو سکتی جس میں چوتھا وہ خود نہ ہو اور نہ کوئی پانچ آدمیوں کی گفتگو ایسی ہو گی جس میں چھٹا وہ نہ ہو اور نہ کوئی اس سے کم کی اور نہ زیادہ کی ایسی ہوگی جس میں وہ نہ ہو جہاں کہیں بھی وہ لوگ موجود ہوں۔

وَمَا تَکُوْنُ فِیْ شَأْنٍ وَمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْئَ انٍ وَلاَ تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا إِذْتُفِیْضُوْنَ فِیْہِ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَآئِ وَلَآ أَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَلآَ اَکْبَرَ اِلاَّفِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْن
(۶۱:۱۰)

اور تم جس بھی حالت میں ہوتے ہو اور قرآن سے جو کچھ بھی پڑھ کر سناتے ہو اور تم جو کچھ بھی کام کرتے ہو ہم تم کو دیکھ رہے ہیں' جب تم اس میں لگے ہوتے ہو اور ذرا بھر بھی کوئی چیز یا اس سے بھی چھوٹی یا بڑی زمین اور آسمانوں میں ایسی موجود نہیں جو تیرے رب سے پوشیدہ ہو۔ سب کچھ اس کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ ۲۷؎

وَلَقَدْ خَلَقْنَاالإِْنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَاتُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (۱۶:۵۰)
ہم نے انسان کو پیدا کیا اورہم جانتے ہیں جو کچھ بھی اس کے جی میں آتا ہے اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

لیکن ہمیں یہ بات بالکل فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ 'قربت' 'اتصال' اور 'باہمی انفعال' کے لفظ جن کا اطلاق مادی اجسام پر ہوتا ہے خدا ان سے بے نیاز ہے۔الوہی زندگی اسی طرز پر کل کائنات سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ روح کا جسم سے ہوتا ہے۔ ۲۸؎ روح نہ تو جسم کے اندر قید ہے اور نہ اس سے باہر ہے۔ نہ اس سے متصل ہے نہ منفعل۔ مگر اس کا جسم کے روئیں روئیں سے تعلق حقیقی ہے۔اور اس تعلق کا جاننا بالکل ممکن نہیں ۲۹؎ سوائے کسی ایسے مکان کے تصور کے حوالے سے جو روح کی لطافت سے مناسبت رکھتا ہو۔ حیات خدا وندی کے حوالے سے مکان کے وجود کا انکار ممکن نہیں، صرف اس مکان کی نوعیت کا تعین کامل احتیاط سے کرنا چاہیے تاکہ خدا کی مطلقیت کا اظہار و اثبات درست طور پر ہو۔ مکان کی تین اقسام ہیں: مادی چیزوں کا مکان، غیر مادی اشیاء کا مکان اور خدا کا مکان۔ ۳۰؎ مادی اشیاء کا مکان پھر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ٹھوس اجسام کا مکان جس میں ہم وسعت کا اثبات کرتے ہیں۔ اس مکان میں حرکت وقت لیتی ہے۔ چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ہوتی ہیں اور اپنی جگہ چھوڑنے میں مزاحمت کرتی ہیں۔ دوسرے، لطیف اجسام کا مکان ، مثلاً ہوا اور آواز کا ایک مکان ہے۔ اس مکان میں بھی اجسام ایک دوسرے سے مزاحم ہوتے ہیں اور ان کی حرکت وقت کے پیمانے سے ناپی جا سکتی ہے گو ان کی حرکت کا وقت ٹھوس اجسام کی حرکت کے وقت سے مختلف ہوگا۔ ایک ٹیوب میں موجود ہوا کو خارج کرکے ہی اس میں مزید ہوا داخل ہو سکتی ہے۔ اور آواز کی لہروں کے وقت کا ٹھوس اجسام کے وقت سے عملی طور پر کوئی مقابلہ ممکن نہیں۔ تیسرے، روشنی کا مکان ہے۔ سورج کی روشنی زمین کے کونوں کھدروں میں فورًا پہنچ جاتی ہے۔ لہٰذا روشنی کی اور آواز کی رفتار میں وقت یا زمان گویا واقعۃًصفر ہوکر رہ جاتا ہے۔ یوں یہ بات بڑی واضح ہے کہ روشنی کا مکان ہوا اور آواز کے مکان سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں اس سے بھی زیادہ قوی دلیل دی جا سکتی ہے۔ موم بتی کی روشنی کمرے کی تمام اطراف میں کمرے میں موجود ہوا کو وہاں سے خارج کئے بغیر پھیل جاتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روشنی کا مکان ہوا کے مکاں سے زیادہ لطیف ہے ۳۱؎ جس کا روشنی کے مکان میں کوئی دخل نہیں۔ ان مختلف مکانوں کے ایک دوسرے کے قریب ہونے کی بنا پر یہ بالکل ممکن نہیں کہ ایک کو دوسرے سے ممیز کیا جائے سوائے خالصتاً عقلی تجزیے اور روحانی تجربے سے۔ ایک اور مثال لیں۔ گرم پانی میں دو متضاد خاصیتیں ہیں یعنی آگ اور پانی کی ۔یوں دکھائی دیتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے میں داخل ہوگئے ہیں ۔حالانکہ اپنی الگ الگ ماہیتوں کی وجہ سے وہ ایک ہی مکان میں نہیں رہ سکتے۔ ۳۲؎ اس حقیقت کو سوائے اس مفروضے کے کسی طرح بیان نہیں کیا جا سکتا کہ دو مادی اشیاء کے مکان گرچہ ایک دوسرے کے بالکل قریب ہوں تاہم مختلف ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن روشنی کے معاملے میں مکانی فاصلے کے عنصر کی موجودگی کے باوجود باہمی مزاحمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ موم بتی کی روشنی صرف ایک خاص فاصلے تک جا سکتی ہے اور سو موم بتیوں کی ایک ہی کمرے میں روشنی آپس میں مدغم ہو جاتی ہے، ایک دوسرے کو اپنی جگہ سے ہٹائے بغیر ۔

عراقی مختلف درجات کے لطافتیں رکھنے والے طبیعی اجسام کے مکانات کے بیان کے بعد مختصراً مکان کی ان مختلف انواع کا ذکر کرتا ہے جو غیر مادی اجسام سے متعلق ہیں۔ مثلاً فرشتے۔ ان مکانات میں بھی فاصلے کا عنصر بالکل غائب نہیں ہوتا۔ اگرچہ غیر مادی وجود آسانی کے ساتھ پتھر کی دیواروں میں سے گزر سکتے ہیں، وہ حرکت سے یکسر بے نیاز نہیں ہوتے۔ عراقی کے مطابق حرکت نامکمل روحانیت کی علامت ہے۔ ۳۳؎ مکانیت سے آزادی کی آخری منزل انسانی روح کو حاصل ہے جو اپنی منفرد نوعیت کے اعتبار سے نہ ساکن ہے اور نہ حرکت پذیر ۳۴؎ یوں مکان کی لامحدود انواع سے گزرتے ہوئے ہم الوہی مکان تک پہنچ جاتے ہیں جو مکمل طور پر ہر طرح کے ابعاد سے پاک ہے اور جو تمام لامتناہیات کے نقطہ اتصال کی تشکیل کرتا ہے۔ ۳۵؎

عراقی کے افکار کی اس تلخیص میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ایک مسلم صوفی نے اس عہد میں زماں و مکان کے اپنے روحانی تجربے کی عقلی تعبیر و تشریح بیان کی جو جدید ریاضی اور طبیعیات کے تصورات کا کوئی ادراک نہ رکھتا تھا۔ عراقی دراصل اس کوشش میں تھا کہ وہ مکان کے ایک ایسے تصور تک پہنچے جو اپنے ظہور میں حرکی ہو۔ نظریوں آتا ہے کہ مبہم طور پر اس کا ذہن اس کوشش میں تھا کہ وہ مکان کے لامتناہی تسلسل کے تصور تک رسائی حاصل کرے۔ تاہم وہ اپنی فکر کی تصریحات کو پانے میں کچھ اس لئے ناکام رہا کہ وہ ایک ریاضی دان نہیں تھا اور کچھ اس کا باعث یہ ہوا کہ وہ ارسطو کی کائنات کے ساکن ہونے کی روایت کی حمایت کا اپنے اندر فطری تعصب رکھتا تھا۔ مزید برآں حقیقت مطلقہ میں فوق المکان "یہاں" اور فوق الابد "اب" کا باہم دگر ادغام موجودہ دور کے تصور 'زمان ۔ مکان' کی نشاندہی کرتا ہے جسے پروفیسر الیگزنڈر"مکان ، زمان اور ذات الٰہیہ' پر اپنے خطبات میں ہر شئے کا مغز اور مرکز قرار دیتا ہے۔ ۳۶؎ عراقی کو اگر زمان کی ماہیت میں زیادہ گہری بصیرت حاصل ہو جاتی تو اسے یقین ہو جاتا کہ زمان ان دونوں میں زیادہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور یہ جو پروفیسر الیگزنڈر کہتا ہے کہ زمان تو مکان کا مغز ہے تو یہ کوئی اتنی زیادہ استعاراتی بات نہیںہے۔ ۳۷؎ عراقی خدا کے کائنات سے تعلق کو اسی طرح کا سمجھتا ہے جس طرح کا انسان کی روح کا تعلق اس کے جسم سے ہے ۔ ۳۸؎ مگر تجربے کے زمانی اور مکانی پہلوئوں پر تنقید کے ذریعے اس فلسفیانہ نتیجے پر رسائی کی بجائے وہ اپنے روحانی تجربے کی بنیاد پر اسے محض فرض کر لیتا ہے۔ یہ بالکل کافی نہیں کہ زمان و مکان کو ایک معدوم ہو جانے والے نقطے میں محدود کر دیا جائے۔ اس کی بجائے فلسفے کی وہ راہ جو خدا بطور ایک روح کل تک جاتی ہے ایک ایسے زندہ فکر کی یافت پر منحصر ہے جو 'زمان۔ مکان' کا بنیادی اُصول ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراقی کے ذہن نے درست سمت میں سفر کیا۔ مگر اس کے ارسطوی تعصبات اور نفسیاتی تجزیے کی اہلیت کے فقدان کی وجہ سے اس کے ذہن کی ترقی رک گئی۔ اس کا یہ تصور کہ زمان الٰہی حرکت سے یکسرعاری ہے اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ شعوری تجربے کے تجزیے کی پوری صلاحیت نہیںرکھتا تھا۔ اس تصور کی بنیاد پر وہ زمان الٰہی اور زمان متسلسل میں تعلق کی نوعیت کو دریافت نہیں کر سکتا تھا۔ ۳۹؎ اور نہ ہی اس حقیقت کو پا سکتا تھا کہ مسلسل تخلیق اسلامی تصور کا لازمہ ہے، جس کا مطلب ایک ہر لحظہ نشو و نما پاتی ہوئی کائنات ہے۔

اسلامی فکر کے تمام ڈانڈے ایک متحرک کائنات کے تصور سے آملتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر ابن مسکویہ کے ارتقائی حرکت پر مبنی نظریہ حیات اور ابن خلدون کے تصور تاریخ سے مزید تقویت پاتا ہے۔ تاریخ یاقرآن کی زبان میں "ایام اللہ" قرآن کے مطابق انسانی علم کا تیسرا بڑا ماخذ ہے۔ یہ قرآن کی تعلیم کا ایک بڑا لازمی حصہ ہے کہ اقوام کا اجتماعی حساب ہوتا ہے اور انہیں اپنے اعمال کی جزا و سزا یہاں اسی دنیا میں دی جاتی ہے۔ ۴۰؎ اس بات کو محکم طور پر واضح کرنے کے لئے قرآن تاریخی حقائق سے مثالیں دیتاہے اور اپنے قاری سے توقع رکھتا ہے کہ وہ نوع انسانی کے ماضی و حال کے تجربات پر غور کرے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوْسَیٰ بِأَیٰتِنَآ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَی النُّورِط وَذَکِّرْہُمْ بِأَ یّٰمِ اﷲِ ط إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لْأَیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ (۱۴:۵)
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ وہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور انہیں ایام اللہ کی یاد دلائے،بے شک صبر اور شکر کرنے والوں کے لئے اس میں بڑی نشانیاں ہیں
وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَo وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَo وَاُمْلِیْ لَہُمْط إِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ
( ۱۸۳-۱۸۱:۷)

ہماری مخلوق میں سے ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو حق کی راہ دکھاتے ہیں اور اس کے ساتھ انصاف کرتے ہیں اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ۔ ہم انہیں آہستہ آہستہ نیچے اتارتے ہیں، اس طرح کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے۔ میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں، بے شک میری چال مضبوط ہے

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ( ۱۳۷:۳)
تم میں سے پہلے کتنی مثالیں گزر چکی ہیں۔ زمین پر چل کر تو دیکھو جھٹلانے والوں کا حشر کیا ہوتا ہے
إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗط وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِج ( ۱۴۰:۳)
اگر تمہیںزک پہنچی ہے تو انہیں بھی (تمہارے مخالفوں کو)بھی تو ایسی ہی زک لگ چکی ہے اور یہ دن ہیں جن کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج (۳۴:۷)
ہر قوم کے لئے ایک وقت ہے ۴۱؎

آخری آیت اس مخصوص تاریخی تعمیم کی واضح مثال ہے جس کا حکیمانہ بیان اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہر انسانی معاشرے کا ایک عضویہ کی حیثیت سے سائنسی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ سوچنا بڑی فاش غلطی ہے کہ قرآن میں تاریخیت کے تصورات موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ابن خلدون کے مقدمے کی ساری روح اس فیضان کا حاصل ہے جو اس کے مصنف نے قرآن حکیم سے حاصل کی۔ حتٰی کہ جب وہ عادات و خصائل کے ضمن میں حکم لگاتا ہے تو بھی وہ قرآن سے کم متاثر نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اس نے عرب قوم کے کردار کا جو جائزہ لیا ہے وہ سارا بیان قرآن کی اس آیت کا مرہون منت ہے۔

اَلْأَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَنِفَاقًا وَّأَجْدَرُ أَ لَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ أَنْزَلَ اﷲُ عَلَیٰ رَسُوْلِہٖط وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ o وَمِنْ الْأَعْرَابِ مَنْ یَتَّخِذُ مَایُنْفِقُ مَغْرَمًا وَیَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَط عَلَیْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ ط وَاﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o
(۹۸- ۹۷:۹)

بدو عرب کفر اورنفاق میں بہت ہی متشدد ہیں اوراس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ اس کے حدود کو نہ جان سکیںجسے اللہ نے اپنے رسولؐ پر اتارا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمتوں والاہے۔ اور عرب بدووں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اسے جرمانہ یا تاوان گردانتے ہیں اور تمہارے بارے میں گردشوں کے انتظار میں ہیں حالانکہ وہ خود برے چکر میں پھنسنے والے ہیں۔ اور اللہ سنتا ہے، جانتا ہے

تاہم انسانی علم کے ماخذ کی حیثیت سے قرآن کی تاریخ میں دلچسپی کا دائرہ تاریخی تعلیمات کی نشاندہی سے بھی کہیں زیادہ وسیع ہے۔ قرآن نے ہمیں تاریخ پر تنقید کا ایک بنیادی اصول دیا ہے۔ چونکہ تاریخ کی بطور سائنسی قطعیت کی شرط یہ ہے کہ بیان شدہ حقائق جن سے تاریخ کا مواد مرتب ہوتا ہے وہ مکمل طور پر درست ہوں اور حقائق کے درست علم کا دار و مدار بالآخر ان پر ہے جو ان کو بیان کرتے ہیں تاریخ پر تنقید کابنیادی اصول یہ ہے ان حقائق کو بیان کرنے والوں کی شہادت کے سلسلے میں ان کا ذاتی کردار اہم گردانا جائے۔ قرآن کہتا ہے:

یٰآیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوٓا ( ۶:۴۹)
اے اہل ایمان! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لائے تو پرکھ لیا کرو

اس آیت میں پیش کردہ اُصول کے آنحضرتؐ کے راویان حدیث پر اطلاق سے تاریخ کی تنقید کے قواعد بتدریج وجود میں آئے۔ اسلام میں تاریخ کے بارے میں شعور کا ارتقا ایک نہایت دلچسپ موضوع ہے۔ ۴۲؎ قرآن حکیم کا تجربے پر اصرار، پیغمبر اسلامؐ کی احادیث کے بیان کی صحت کو متعین کرنے کی ضرورت اور یہ خواہش کہ آنے والی نسلوں تک یہ مستقل فیضان کا منبع موجود رہے ان تمام عناصر نے ابن اسحاق ۴۳؎ طبری ۴۴؎ اور مسعودی جیسی شخصیتوں کو جنم دیا۔ ۴۵؎ لیکن تاریخ بطور ایک ایسے فن کے جو قاری کے تخیل کو مہمیز دیتاہے تاریخ کی سائنسی حیثیت کے ارتقاء میں محض ایک مرحلہ ہے۔ تاریخ کی سائنسی حیثیت کو پوری طرح اجاگر کرنے کے لئے وسیع تجربہ، عقل عملی کی پختگی اور زندگی اور زمان کے بارے میں بنیادی تصورات کا صحیح ادراک ضروری ہے۔ اس سلسلے میں دو تصورات بنیادی ہیں اور دونوں ہی کی بنیاد قرآن کی تعلیمات پر ہے۔

۱- وحدت اصل انسانی۔ قرآن کا فرمان ہے: 'اور ہم نے تمہیں زندگی کی ایک ہی سانس سے پیدا کیا' ۴۶؎ مگر زندگی کا ایک وحدت نامیہ کے طور پر ادراک کچھ دیر کے بعد ہی ہوتا ہے اور واقعات عالم کی مرکزی رو میں کسی قوم کے داخل ہونے پر اس کی نشو و نما کا انحصار ہے۔ اسلام کو یہ موقعہ اس وقت ملا جب وہ تیزی کے ساتھ ایک بہت بڑی سلطنت میں تبدیل ہوا ۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام سے بہت پہلے عیسائیت نے نسل انسانی کو مساوات کا پیغام دیا تھا۔ مگر مسیحی روما نے انسانیت کے نسبی اور عضوی طور پر ایک ہونے کا پورا ادراک حاصل نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ فلنٹ یہ بات بالکل درست طور پر کہتا ہے کہ "کسی بھی عیسائی مصنف اور یقینا اس سے بھی کم کسی رومی بادشاہ کو یہ اعزاز نہیں جاتا کہ اس کے پاس ایک عمومی اور مجردانسانی وحدت سے زیادہ کا کوئی تصور ہو"۔ اور رومی حکمرانوں کے عہد سے لے کر اب تک اس تصور نے یورپ میں اپنی جڑیں گہرے طور پر ثبت نہیں کیں۔ دوسری طرف علاقائی قومیت نے اپنے قومی خصائص پر اصرار کرتے ہوئے یورپ کے ادب و فن میں وسیع تر انسانیت کے تصورات کو تباہ کر دیا۔ اسلام میں اس سے بالکل مختلف صورت حال ہوئی۔ یہاں وحدت انسانی کا تصور نہ تو فلسفیانہ تھا اور نہ ہی یہ شاعرانہ خواب تھا۔ بلکہ ایک عمرانی تحریک کے طور پر اسلام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی روز مرہ کی زندگی میں اس تصور کو ایک زندہ قوت میں بدل دیا جائے۔ اور یوں یہ خاموشی کے ساتھ اور غیر شعوری طور پر اپنی بار آوری کی طرف بڑھتاچلا جائے۔

۲- زمان کی حقیقت کا گہرا شعور اور زمان میں زندگی کی مسلسل حرکت کا تصور۔ ابن خلدون کے نظریہ تاریخ میں دلچسپی کا بنیادی نکتہ زندگی اور زمان کا یہی تصور ہے اور یہی تصور فلنٹ کے تعریفی کلمے کا جواز بنتا ہے کہ افلاطون، ارسطو اور آگسٹائن کاابن خلدون سے کوئی مقابلہ ہی نہیں، جبکہ دوسرے تو اس قابل ہی نہیں ہیں کہ ان کا اس سلسلے میں نام بھی لیا جا سکے۔ ۴۷؎ ان آراء سے جو میں نے اوپر ظاہر کی ہیں، میرا مقصد یہ نہیں کہ مجھے ابن خلدون کے طبع زاد ہونے میں کوئی کلام ہے بلکہ میرا مقصود یہ کہنا ہے کہ اسلامی ثقافت نے جس سمت میں سفر کیا اس کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات صاف طور پر کھل جاتی ہے کہ صرف ایک مسلمان ہی تاریخ کے ایک مسلسل اور کلی حرکت ہونے کا نظریہ اختیار کر سکتا تھا جو زمان کے اندر ایک ناگزیر نشوو ارتقا پر مشتمل ہے۔

تاریخ کے اس تصور میں دلچسپی کا نکتہ وہ انداز ہے جس میں ابن خلدون تبدیلی کے عمل کو سمجھتا ہے۔ اس کا تصور بے حد اہم ہے کیونکہ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ تاریخ، زمان میں ایک مسلسل حرکت کی حیثیت سے حقیقی طور پر ایک تخلیقی حرکت ہے۔ وہ ایسی حرکت نہیں جس کی راہ پہلے سے متعین ہوتی ہے۔ ابن خلدون مابعد الطبیعیاتی فلسفی نہیں تھا بلکہ وہ مابعد اطبیعیات کا مخالف تھا۔۴۸؎ مگر زمان کے بارے میں اس کے تصور کی ماہیت کے حوالے سے اسے برگساں کا پیش رو کہا جا سکتا ہے۔ میں تمدن اسلام کی تاریخ میں اس تصور کے عقلی سوابق کے بارے میں پہلے ہی بحث کر چکا ہوں۔ قرآن کا یہ تصور کہ دن اور رات کا ادل بدل حقیقت مطلقہ کی علامت ہے ۴۹؎ جس میں ہر لحظہ اس کی نئی شان کی جھلک نظر آتی ہے' ۵۰؎ مسلم الٰہیات میں یہ رجحان کہ وقت کی حیثیت معروضی ہے' ابن مسکویہ کا زندگی کے بارے میں تکوینی تسلسل کا تصور ۵۱؎ اور آخری بات کہ البیرونی نے تصورفطرت تک رسائی کے معاملے کو بیان کیا کہ وہ سلسلہ آنات ہے ۔ ۵۲؎ یہ تمام ابن خلدون کی عقلی اور علمی وراثت ہیں۔ اس کا اصل امتیاز اُس تہذیب و تمدن کی روح کا نکتہ رس ادراک ہے اور اس ادراک کا منضبط اظہار ہے جس کی سب سے تابناک پیداواروہ خود تھا۔ اس کے اس عقلی کارنامے نے یونانی کلاسیکیت کے خلاف قرآن کی روح کو اس پر آخری کامیابی عطا کی کیونکہ یونانیوں کے ہاں زماں یا تو غیر حقیقی ہے، جیسا کہ افلاطون اور زینو کا خیال تھا' یا وہ ایک دائرے میں حرکت کرتا ہے جیسا کہ ہر اقلیطس اور رواقی کہتے تھے۔ ۵۳؎ تخلیقی حرکت کو پرکھنے کا جو بھی معیار مقرر کر لیا جائے حرکت کو بذات خود اگر دوری تصور کیا جائے تو وہ تخلیقی نہیں ہوگی۔ دوامی رجعت دوامی تخلیق نہیں بلکہ دوامی تکرار ہے۔

اب ہم اس مقام پر ہیں کہ یونانی فلسفے کے خلاف اسلام کی عقلی بغاوت کی صحیح معنویت کو جان سکیں۔ یہ کہ اس عقلی بغاوت کا آغاز خالصتًا مذہبی بنیادوں پر ہوا اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کی یونانی کلاسیکیت کے منافی روح نے بالآخر غلبہ حاصل کیا باوجود اس امر کے کہ شروع میں بعض کی یہ خواہش تھی کہ اسلام کو یونانی فکر کی روشنی میں سمجھا جائے۔

اب ایک بہت بڑی غلط فہمی کو دور کرنا باقی ہے جو بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب "زوال مغرب" کے مصنف فریڈرک اشپنگلر نے پھیلا رکھی ہے۔ اس نے اپنی کتاب کے دو ابواب عربی ثقافت پر لکھے ہیں ۵۴؎ جو ایشیا کی ثقافتی تاریخ پر اُس کی نہایت اہم تحریر ہیں۔ جو یہ "فطرت اسلام بحیثیت مذہبی تحریک" اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ثقافتی فعلیت کے بارے میں مکمل غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ اشپنگلر کا بنیادی موقف یہ ہے کہ ہر ثقافت اپنی ایک مخصوص عضویاتی تشکیل رکھتی ہے جس کا تاریخی لحاظ سے اپنے سے پہلے اوراپنے بعد آنے والی ثقافتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یقینًا اس کے مطابق ہر ثقافت کا اشیاء کو دیکھنے کا اپنا ایک مخصوص اور مختلف نقطہ نظر ہوتا ہے جو کوئی دوسری ثقافت رکھنے والا شخص سمجھ نہیں سکتا۔ اپنے اس دعوے کی تائید حاصل کرنے کی بے چینی میں اس نے مختلف طرح کے حقائق اور ان کی تعبیرات کا انبار لگا دیا ہے تاکہ ثابت کیاجا سکے کہ یورپی ثقافت کی روح کلاسیکی ثقافت کے خلاف تھی اور یہ کہ یورپی ثقافت کی کلاسیکیت کے منافی روح کا سبب یورپ کی اپنی مخصوص فطانت تھی نہ کہ کوئی ایسا تاثر جو اس نے 'اسلامی ثقافت' سے قبول کیا ہو جو اشپنگلر کے نقطہ نظر کے مطابق اپنی روح اور اپنے کردار میں مجوسی ہے۔ اشپنگلر کا جدید ثقافت کی روح کے بارے میں نقطہ نظر میرے نزدیک بالکل درست ہے۔ تاہم میں نے اپنے ان خطبات میں صرف یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جدید دنیا کی کلاسیکیت کے خلاف روح کا ظہور حقیقتاً یونانی فکر سے اسلام کی عقلی بغاوت کا نتیجہ ہے۔ ۵۵؎ یہ بات واضح ہے کہ اشپنگلر کو یہ نقطہ نظر بالکل قبول نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہ ثابت کرنا ممکن ہو کہ کلاسیکیت کی روح کے منافی جدید ثقافت کا احیا اس سے ماضی میں قریب تر ثقافت کا نتیجہ ہے تو ثقافتوں کی باہمی خود مختارانہ حیثیت کا اشپنگلر کا نقطہ نظر مکمل طور پر باطل ٹھہرے گا۔ میری رائے میں اشپنگلر کے اپنے موقف کو ثابت کرنے پر اصرار نے اسلام بحیثیت ایک ثقافتی تحریک کے بارے میں اس کی بصیرت کو بری طرح مسخ کر دیا۔

مجوسی ثقافت سے اشپنگلر کا مطلب وہ ثقافت ہے جو یہودیت' قدیم کلدانی مذہب' ابتدائی مسیحیت' زرتشت کے مذہب اور اسلام میں مشترک ہے جنہیں وہ مجوسی مذاہب کا گرویدہ قرار دیتا ہے۔ ۵۶؎ مجھے اس سے انکار نہیں کہ اسلام پر بھی مجوسیت کا غلاف چڑھا ہوا ہے۔ یقیناً ان خطبات سے میرا مقصد یہ بھی ہے کہ میں اسلام کی روح کو اس انداز نگاہ سے محفوظ کروں اور اس پر سے مجوسیت کی چادر کو اتار پھینکوں جس سے میری نظر میں اشپنگلر گمراہ ہوا۔ اس کی مسئلہ زمان پر مسلم فکر سے نا آشنائی اور اس طرح اُس "میں" سے لاعلمی جس میں تجربے کے ایک آزاد مرکز کی حیثیت سے اسلام کے مذہبی تجربے کا اظہار پایا جاتا ہے' انتہائی افسوس ناک ہے۔ ۵۷؎ مسلم فکر اور تجربے سے روشنی حاصل کرنے کی بجائے وہ زمان کے آغاز و انجام کے بارے میں اپنے استدلال کی بنیاد کسی ژولیدہ عقیدے پر رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ذرا ایک ایسے شخص کا تصور کیجئے جو نہایت پڑھا لکھا ہے ۵۸؎ لیکن اسلام کی مفروضہ تقدیر پرستی کی تائید میں "وقت کی گردش" اور "ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے" جیسی مشرقی ضرب الامثال اور کہاوتوں کا سہارا لیتا ہے! ۵۹؎ میں نے اسلام میں تصور زمان کی ابتدا اور اس کے ارتقا' اور ایک آزاد قوت رکھنے والی انسانی خودی کے بارے میں ان خطبات میں بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے بارے میں اشپنگلر کے نقطہ نظر اور اس سے جنم لینے والی ثقافت کا مکمل تجزیہ کرنے کے لیے ایک پوری کتاب چاہیے۔ تاہم جو کچھ میں نے کہا ہے اس میں اضافہ کرتے ہوئے میں اس کی عمومی ماہیت کے بارے میں ایک اور اضافہ کرنا چاہوں گا۔

اشپنگلر کے کہنے کے مطابق نبی پاک ﷺ کی پیغمبرانہ تعلیمات اصلاً مجوسیانہ ہیں۔ خدا ایک ہے: اسے بے شک "یہواہ " کہیں "آھور مزد" یا مردوک بعل۔ ۶۰؎ یہ نیکی یا خیر کا ایک اصول ہے۔ دوسرے تمام دیوتا یا تو بے بس ہیں یا شر ہیں۔ اسی عقیدے سے بذات خود مسیح کے آنے کی امید وابستہ ہے جو یسیعاہ میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے جو انسان کی باطنی ضرورت کے تحت اگلی کئی صدیوں میں ہر کہیں سامنے آتی رہی ہے۔ یہ مجوسی مذہب کا ایک بنیادی تصور ہے کیونکہ یہ نیکی اور بدی میں عالمگیر تاریخی آویزش کا تصور لیے ہوئے ہے جس کے تحت درمیانی عرصے میں بدی کی قوت حاوی رہتی ہے مگر بالآخر نیکی یوم حساب کو فتح یاب ہوگی۔ اگر پیغمبرانہ تعلیمات کا یہ نظریہ اسلام پر لاگو کیا جائے تو یہ ایک غلط فہمی ہوگی۔ جو نکتہ بنیادی طور پر ذہن میں رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ مجوسی جھوٹے خدائوں کے وجود کو بھی تسلیم کرتے تھے لیکن وہ ان کی پوجا نہیں کرتے تھے۔ مگر اسلام ہر طرح کے جھوٹے خدائوں کے وجود کا منکر ہے۔ اس تناظر میں اشپنگلر اسلام کے ختم نبوت کے تصور کی ثقافتی قدر کا اندازہ کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مجوسی ثقافت کا ایک مستقل نمایاں پہلو اُمیدکا رویہ بھی ہے' جس کے حوالے سے مستقل طور پر نظریں زرتشت کے ایسے بیٹوں کی آمد کی طرف لگی رہتی ہیں جو اس نے جنے نہیں۔ یہ مسیح یا چوتھی انجیل کا فارقلیط بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے اس سے پہلے بھی نشاندہی کی ہے کہ اسلام کے طالب علم کو اسلام میں ختم نبوت کے عقیدے کے ثقافتی معنی کی تلاش کس سمت میں کرنی چاہیے۔ ممکن ہے عقیدہ ختم نبوت کی وساطت سے پیہم اُمید کے اُس مجوسی رویے کا نفسیاتی علاج بھی ہو سکے جس سے تاریخ کا ایک غلط تصور وجود میں آیا ہے۔ ابن خلدون نے اپنے تصور تاریخ کی روح کے پیش نظر اُس تصور کی نام نہاد قرآنی اساس پر بھرپور تنقید کی جو بنیادی مجوسی تصور سے ــ کم ازکم نفسیاتی اثرات کے حوالے سے ــ مشابہت رکھتا ہے۔ یہ مجوسی تصور مجوسی فکر کے دبائو کے تحت اسلام میں پھر سے نمودار ہوا۔ ۶۱؎

حاشیۂ مترجم

(الف) قدوسی' اعجاز الحق "شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور ان کی تعلیمات' ناشر اکیڈیمی آف ایجوکیشنل ریسرچ کراچی' بار اوّل ۱۹۶۱ ص ۳۲۷' ۳۲۸

مرحوم سید نذیر نیازی نے اپنے ترجمے میں یہ الفاظ لکھے ہیں "محمد عربی بر فلک الافلاک رفت و باز آمد' واﷲ اگر من رفتمے ہر گز باز نیامدے" دراصل یہ الفاظ ممتاز صوفی ابو سلیمان الدارانی (متوفی ۲۱۵ھ) کے ہیں جو اس طرح ہیں "لو و صلوامارجعوا" خود سید نذیر نیازی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انہیں حضرت گنگوہی کے اصل الفاظ نہیں ملے' انہوں نے انگریزی الفاظ کا فارسی میں محض ترجمہ کیا ہے۔ جبکہ اعجاز الحق نے محولہ بالا اصل الفاظ بھی درج کر دیئے ہیں۔ جن کا حضرت گنگوہی نے ابو سلیمان الدارانی کے محولہ بالا عربی الفاظ سے اکتساب کیا۔
(وحید عشرت)

<<پچھلا  اگلا>>

اسلام میں حرکت کا اُصول

اسلام میں حرکت کا اُصول


دیگر زبانیں
English
اردو

logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان