www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

مندرجات

ابتدائیہ
علم اور مذہبی مشاہدہ
مذہبی واردات کے انکشافات کا...
خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم
انسانی خودی اس کی آزادی اور...
مسلم ثقافت کی روح
اسلام میں حرکت کا اُصول
کیا مذہب کا امکان ہے؟
حواشی و حوالہ جات
Quranic Index


دیگر زبانیں

مسلم ثقافت کی روح

" خودی کی تشکیل زندگی کے محسوسات سے ہوتی ہے اور یوں وہ نظام فکر کا حصہ ہے۔ فکر کا ہر موجود اور گزرا ہوا ارتعاش ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے جس میں علم اور یادداشت دونوں موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا گزرے ہوئے ارتعاش سے اُبھرتے ہوئے ارتعاش اور اُبھرتے ہوئے ارتعاش سے اس کے بعد اُبھرنے والے ارتعاش سے کام لینے کا نام خودی ہے"
اقبالؒ

قرآن حکیم اپنے سادہ مگر پرزور اسلوب میں انسان کی فردیت اور یکتائی پر اصرار کرتا ہے اور میرے خیال میں وہ زندگی کی وحدت کے لحاظ سے انسانی تقدیر کا ایک قطعی تصور رکھتا ہے۔۱؎ انسان کی یکتائی کا یہی منفرد نظریہ اس بات کو بالکل ناممکن بناتا ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کا بوجھ اٹھائے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ہر انسان صرف اُسی کا حقدار ہے ۲؎ جس کے لئے اس نے ذاتی کوشش کی ہو گی۔ ۳؎ سی وجہ سے قرآن نے کفارے کے تصور کو ردّ کر دیا ہے۔ قرآن حکیم سے تین چیزیں بالکل واضح ہیں:

۱ ۔ انسان خدا کی منتخب مخلوق ہے۔
ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدٰی (۱۲۲:۲۰)
پس اسے خدا نے آدم کے برگزیدہ کیااور اس کی توبہ قبول کی اور اسے ہدایت عطا کی

۲۔ انسان اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود زمین پر خدا کا خلیفہ (نائب ) ہے۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْآ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّیٓ أَعْلَمُ مَالاَ تَعْلمُوْنَ (۳۰:۲)
"جب کہا تمہارے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں تو انہوںنے کہا کہ آپ زمین پر اسے خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرنے والا ہے اور خون بہانے والا ہے اور ہم آپ کی تسبیح کرتے ہیں اور آپ کی تقدیس بیان کرتے ہیں۔ اﷲ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تمہارے علم میں نہیںہے۔"
وَھُوَالَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَٰٓئِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَٰتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَآئَ تَٰکُمْ (۱۶۵:۶)
وہی ہے جس نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے ہیں تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے

۳- انسان کو ایک آزاد شخصیت امانت کی گئی ہے جو اس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر قبول کی ہے۔ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الإِْنْسَانُط إِنَّہُ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً (۸۲:۳۳)

ہم نے امانت کا یہ بوجھ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے رکھا تو وہ اسے اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ تاہم یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ انسانی شعور کی وحدت جو انسانی شخصیت کے مرکز کو متشکل کرتی ہے وہ کبھی بھی مسلم فکر کی تاریخ میں دلچسپی کا باعث نہیں رہی۔ متکلمین نے روح کو ایک لطیف قسم کا مادہ یا محض عرض ہی تصور کیا ہے جو جسم کے ساتھ ہی مر جاتا ہے اور قیامت کے دن جسے دوبارہ تخلیق کیا جائے گا۔ مسلمان فلاسفہ نے ان نظریات میں یونانی فلسفے کے رحجانات کو قبول کیا تھا۔ جہاں تک دوسرے مکاتب فکر کا تعلق ہے تو یہ یادرکھنا چاہئے کہ اسلام کی جغرافیائی حدود میں وسعت کے ساتھ ساتھ مختلف اقوام کے لوگ اس میں شامل ہوتے گئے جن کے عقائد و نظریات میں اختلاف تھا۔ ان میں نسطوری، زرتشتی اور یہود شامل تھے جن کا فکری نکتہ نگاہ ایک ایسی ثقافت کا پروردہ تھا جس کا پورے وسطی اور مغربی ایشیا میں غلبہ رہا۔ اس ثقافت کی اصل اور اس کا عمومی ارتقاء مجوسی تصورات سے وابستہ تھا۔ اس کی روح کی بنت میں ثنویت سموئی ہوئی تھی جسے ہم اسلام کے الہیاتی فکر میں بھی کم و بیش جھلکتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ ۴؎ البتہ صرف عبادت و ریاضت میں مُستغرق تصوف نے ہی باطنی تجربے کی وحدت کے معانی جاننے کی سعی کی جسے قرآن نے تین ذرائع علم میں سے ایک شمار کیا ہے: ۵؎ دوسرے دو ذرائع تاریخ اور فطرت ہیں۔ اسلام کی مذہبی زندگی میں اس تجربے کی نمو حلاّج کے ان معروف الفاظ میں اپنے کمال تک پہنچی: "انا الحق" (میں ہی حق ہوں) ۔حلاّج کے ہم عصروں نے اوراس کے اخلاف نے ان الفاظ کی وحدت الوجودی تعبیر کی مگر حلاّج کی تحریریں جو فرانسیسی مستشرق ایل میسی نون نے جمع کرکے شائع کی ہیں وہ اس باب میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنے دیتیں کہ اس شہید صوفی نے خدا کے وراء الورا ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا تھا۔ ۶؎ اس کے تجربے کی سچی تعبیر یہ نہیں کہ قطرہ سمندر میں جا ملا ہے بلکہ اس کا مفہوم ناقابل تردید الفاظ میں اس امر کا ادراک اور اس کی جرات مندانہ تصدیق ہے کہ ایک گہری شخصیت کے اندر انسانی خودی واقعی اور پائیدار وجود رکھتی ہے۔ چنانچہ حلّاج کا جملہ متکلمین کے خلاف ایک چیلنج دکھائی دیتا ہے۔ مذہب کے جدید عہد کے طالب علم کی مشکل یہ ہے کہ اس طرح کا تجربہ اگرچہ اپنی ابتداء میں مکمل طور پر عمومی ہوتا ہے وہ پختگی میں شعور کی نامعلوم پرتوں کو کھولتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ابن خلدون نے ایک ایسے موثر سائنسی طریق کار کی ضرورت کو محسوس کیا تھا جو شعور کی ان نامعلوم پرتوں کی تحقیق کرے۔ ـ ۷؎ جدید نفسیات نے حال ہی میں اس طریق کار کی ضرورت کا احساس کیا ہے مگر وہ ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ شعور کی صوفیانہ پرتوں کے مخصوص پہلوئوں کے علاوہ کچھ دریافت کر سکے۔ ۸؎ چونکہ ہمارے پاس ابھی تک کوئی ایسا سائنسی طریق کارنہیں ہے جو اس نوعیت کے تجربات کا مطالعہ کر سکے جن پر مثلاً حلّاج کے دعوے کی بنیاد ہے ہم علم کے سرچشمے کی حیثیت سے ان کے اندر پنہاں امکانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی الہٰیاتی نظام کے وہ تصورات جو عملی طور پر ایک مردہ مابعد الطبیعیات کی اصطلاحوں میں بیان کئے جاتے ہیں ان افرادکے لئے مددگار ہو سکتے ہیں جو ایک مختلف قسم کے فکری و ذہنی پس منظر کے مالک ہوں۔ لہٰذا آج کے مسلمان کے سامنے کرنے کا کام بہت زیادہ ہے۔اسے چاہئے کہ ماضی سے مکمل طور پر رشتہ توڑے بغیر پورے نظام اسلام کے بارے میں دوبارہ تفکر و تدبر کرے۔ غالباً سب سے پہلے مسلمان شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تھے جنہوں نے اپنے آپ میں ایک نئی روح کی بیداری محسوس کی۔ مگر وہ شخص جس کو اس کام کی وسعت اور اس کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ تھا اور جو مسلم فکر کی تاریخ اور مسلمانوں کی حیات ملّی کے باطنی مفاہیم کی گہری تفہیم رکھتا تھا جسے اس نے گہری بصیرت اور وسیع انسانی تجربے سے ہم آہنگ کرکے ماضی اور مستقبل کے مابین ایک زندہ تعلق کی صورت میں منضبط کر دیا وہ جمال الدین افغانی تھا۔ اس کی انتھک مگر منقسم توانائی اگر اسلام کو انسانی اعتقادات اور تعلقات کے نظام کی حیثیت میں پیش کرنے پر مرتکز رہتی تو کہا جا سکتا ہے کہ آج دنیائے اسلام فکری طور پر زیادہ مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہوتی۔ ہمارے سامنے اب صرف یہی راستہ رہ گیا ہے کہ ہم جدید علوم کے لئے احترام کا لیکن بے لاگ روّیہ رکھیں اور ان علوم کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کریں اگرچہ نتیجۃً ہمیں اپنے سے پہلے لوگوں سے اختلاف ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ میرے آج کے خطبے کا یہی موضوع ہے۔

عصر حاضر کی فکری تاریخ میں بریڈلے نے خودی کی حقیقت سے انکار کے ناممکن ہونے کے بیّن شواہد دیئے۔ اپنی تصنیف "مطالعہ اخلاق" ۹؎ میں اس نے خودی کی حقیقت کو قبول کیا ہے۔ البتہ اپنی کتاب "منطق" ۱۰؎ میں وہ اسے محض ایک کارآمد مفروضہ گردانتا ہے۔ اپنی کتاب "شہود اور حقیقت" میں اس نے خودی کو اپنی تحقیقی جستجو کا موضوع بنایا ہے۔ ۱۱ ؎ یقینا اس کتاب کے دو ابواب جو خودی کے معانی اور اس کی حقیقت پر ہیں کسی جیو آتما ۱۲ ؎ کی عدم حقیقت کے حوالے سے عہد جدید کی اُپنشد شمار کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے نزدیک حقیقت کا معیار اس کا تضادات سے پاک ہونا ہے اور چونکہ اس کی تنقید نے دریافت کیا کہ تجربے کا محدود مرکز تغیر و ثبات اور وحدت و کثرت کی ناقابل تطبیق حالتوں کا حامل ہے یہ محض ایک واہمہ ہے۔ خودی کا ہم کوئی بھی مفہوم لیں: محسوسات، تشخص ذات، روح یا ارادہ، اس کا صرف فکر کے قوانین کے تحت ہی تجزیہ کیا جا سکتا ہے جو اپنی فطرت میں نسبتی ہوتا ہے اور تمام نسبتیں تضادات کے گرد گھومتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کی بے رحم منطق خودی کو ابہامات کا ملغوبہ گردانتی ہے بریڈلے کو یہ تسلیم کرتے ہی بنی کہ خودی لازمی طور پر کسی نہ کسی مفہوم میں ایک حقیقت ہے اور یہ کسی نہ کسی پہلو سے ایسی حقیقت ہے ۱۳؎ جسے ایک ناقابل انکار امر واقعی کہہ سکتے ہیں۔ ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ خودی اپنے محدود مفہوم میں زندگی کی وحدت کے لحاظ سے نامکمل ہے۔ یقینا اپنی فطرت میں وہ ایک ایسی وحدت کی اُمنگ رکھتی ہے جو زیادہ سے زیادہ ہمہ گیر، موثر، متوازن اور منفرد ہو۔ کون جانتا ہے کہ ایک اکمل وحدت کی تنظیم کے لئے کتنی قسم کے مختلف احوال سے گزرنے کی ضرورت ہوگی۔ اپنی تنظیم کے موجودہ مرحلے پر یہ اطناب کی حالت اس وقت تک برقرار نہیں رکھ سکتی جب تک اسے نیند کی صورت میں برابر آسودگی نہ ملتی رہے۔ تاہم ایک معمولی سا مہیج بعض اوقات اس کی وحدت کو ضرور پارہ پارہ کرسکتا ہے اور ایک موثر قوت کے طور پر اسے ختم کر سکتا ہے۔ بہرحال تجزیہ جو کچھ بھی ہو ہمارا خودی کا احساس اتنا بنیادی اور طاقتور ہے کہ بریڈلے کو بادلِ ناخواستہ اس کی حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا۔

چنانچہ تجربے کا متناہی مرکز حقیقی ہے، اگرچہ اس کی حقیقت اتنی گہری ہے کہ اسے عقل کی گرفت میں نہیں لایا جا سکتا۔ خودی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ خودی اپنے آپ کو ایسی وحدت میں ظاہر کرتی ہے جسے ہم ذہنی حالتوں کی وحدت کہہ سکتے ہیں۔ ذہنی حالتیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتیں۔ یہ ایک دوسرے سے متعلق اور ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ کل کی کیفیات کی طرح رہتی ہیں جسے ہم ذہن کہتے ہیں۔ تاہم ان منسلک حالتوں یا واقعات کی عضویاتی وحدت ایک خاص قسم کی وحدت ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک مادی شئے کی وحدت سے مختلف ہے کیونکہ ایک مادی شئے کے حصے الگ سے وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ذہنی وحدت بالکل ہی منفرد چیز ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی اعتقاد میرے دوسرے اعتقاد کے دائیں یا بائیں جانب واقع ہے اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ میری تاج محل کے حسن کی تعریف کا تعلق میرے آگرے سے کم یا زیادہ فاصلے پر موجود ہونے پر منحصر ہے۔ میری فکری مکانیت کا کوئی تعلق بھی مکان سے نہیں ہے۔ یقینا خودی ایک سے زیادہ نظامات مکانی کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔ مگر بیدار شعور کی مکانیت اور خواب کی مکانیت کا آپس میں کوئی باہمی تعلق نہیں، وہ ایک دوسرے کی حدود نہیں پھلانگتیں اور نہ ہی ایک دوسرے کی حدود میں دخل اندازی کرتی ہیں۔ البتہ جسم کے لئے تو ایک ہی مکان ہے۔ چنانچہ خودی ان معنوں میں مکان کی پابند نہیں جن معنوں میں جسم پابند ہے۔ مزید برآں اگرچہ ذہنی اور جسمانی واقعات دونوں زمان کے پابند ہیں، مگر خودی کا زمان، طبیعی واقعات کے زمان سے ہر لحاظ سے مختلف ہے۔ طبیعی واقعات کا دوران ایک حاضر حقیقت کے لحاظ سے مکان کے حوالے سے متعین ہے مگر خودی کا دوران خود اسی میں مرتکز ہوتا ہے اور اس کے حال اور مستقبل سے ایک منفرد طریق سے منسلک ہوتا ہے۔ طبیعی واقعات کی بناوٹ بعض خاص نشانات کو منکشف کرتی ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ زمان کے دوران سے گزرے ہیں مگر یہ نشانات محض زمان کے دوران کی علامات ہیں خود دوران زمان نہیں ہیں۔ زمان خالص کے دوران کا تعلق صرف خودی سے ہے۔

خودی کی وحدت کی ایک اور اہم خصوصیت اس کی قطعی خلوت ہے جو ہر خودی کی انفرادیت کو منکشف کرتی ہے۔ ایک خاص نتیجے تک رسائی کے لئے قیاس کے تمام قضیوں کا ایک ہی ذہن کے لئے قابل قبول ہونا لازم ہے۔ اگر میں اس قضیے پر یقین رکھتا ہوں کہ "تمام انسان فانی ہیں" اور ایک دوسرا ذہن اس قضیے پر یقین رکھتا ہے کہ "سقراط ایک انسان ہے" تو کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ نتیجہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ جب دونوں ہی قضایا یعنی "تمام انسان فانی ہیں" اور "سقراط ایک انسان ہے" ایک ہی ذہن میں جمع ہوں۔ پھر میری کسی خاص شئے کی خواہش بھی لازمی طور پر میری ہی ہے۔ اس کی تسکین کا مطلب میری ذاتی مسرت ہے۔ میرے علاوہ اگر تمام انسانیت ایک ہی چیز کی خواہش کرنے لگے تو ان کی خواہش کی تسکین کا مطلب میری خواہش کی تسکین نہیں جب تک کہ وہ شئے مجھے دستیاب نہیں۔ دانتوں کے ڈاکٹر کو دانت درد میں مجھ سے ہمدردی ہو سکتی ہے مگر وہ میری دانت درد کا تجربہ تو نہیں کر سکتا۔ میری خوشیاں ،تکالیف اور خواہشات خالصتاً میری ذاتی ہیں جو خالصتاً میری ذاتی انا یا خودی کی تشکیل کرتی ہیں۔ میرے احساسات، میری نفرتیں اور محبتیں، تصدیقات اور فیصلے خالصتاً میرے ہیں۔ خدا بھی میرے احساسات کو میری طرح محسوس نہیں کر سکتا اور جب ایک سے زیادہ متبادل راستے میرے سامنے موجود ہوں تو میری بجائے وہ فیصلہ نہیں کر سکتا اور انتخاب نہیں کر سکتا۔ اسی طرح آپ کی پہچان کے لئے لازم ہے کہ میں آپ کو پہلے سے جانتا ہوں۔ کسی جگہ یا کسی فرد کی پہچان کا تعلق میرے ماضی کے تجربے سے ہے نہ کہ کسی اور شخص کے ماضی کے تجربے سے۔ میری ذہنی حالتوں کے مابین رابطوں کی یہی انفرادیت ہے جسے ہم لفظ "میں" کے ذریعے بیان کرتے ہیں ۱۴؎ اور یہیں سے نفسیات کے بہت بڑے مسئلے کا آغاز ہوتا ہے کہ اس "میں" کی نوعیت و ماہیت کیا ہے؟

اسلامی مکتب فکر، جس کے امام غزالی رہنما ہیں، ۱۵؎ کے مطابق خودی سادہ، ناقابل تقسیم اور غیر متغیر روحانی جوہر ہے جو ہماری ذہنی حالتوں کی کثرت سے بالکل مختلف اور زمانے کے دوران سے بالکل محفوظ ہے۔ ہمارا شعوری تجربہ ایک وحدت ہے کیونکہ ہماری ذہنی حالتیں وہ خواص ہیں جو اس سادہ جوہر سے متعلق ہیں اور یہ ان خاصیتوں کے تغیرو تبدل کے دوران میں تبدیل نہیں ہوتا۔ آپ سے میری پہچان اس وقت ممکن ہے جب میں بنیادی ادراک اور موجودہ بازیافت کے عمل کے دوران تبدیل نہ ہوں۔ تاہم اس مکتب فکر کی دلچسپی نفسیاتی سے زیادہ مابعد الطبیعیاتی تھی۔ لیکن خواہ ہم رو ح کی ہستی کو اپنے شعوری تجربے کے حقائق کی وضاحت مان لیں یا ہم اسے اپنی بقائے دوام کی اساس گردانیں یہ نہ کسی نفسیاتی اور نہ ہی مابعد الطبیعیاتی مقصد کو پورا کرتی ہے۔ کانٹ کے عقل محض کے مغالطے جدید فلسفے کے طلباء کے لئے اجنبی نہیں ہیں ۔۱۶؎ "میں سوچتا ہوں" کانٹ کے مطابق ہر فکر کو لازم ہے اور فکر کی خالص صوری شرط ہے اور ایک خالص صوری شرط سے وجودی جو ہر کا استنتاج منطقی طور پر جائز نہیں۔ ۱۷؎ موضوعی تجربہ کے تجزیے کے بارے میں کانٹ کے نقطہ نظر سے قطع نظر بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی جوہر کا ناقابل تقسیم ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ معدوم نہیں ہو سکتا کیونکہ کانٹ کے اپنے الفاظ میں یہ کسی شدید کیفیت کی طرح آہستہ آہستہ لاشیئت میں معدوم ہو سکتا ہے یا یک دم ختم ہو سکتاہے۔ ۱۸؎ جوہر کا یہ ساکت و صامت نکتہ نظر کسی نفسیاتی مقصد کو بھی پورا نہیں کرتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شعوری تجربے کے عناصر کوروح کی صفات اس انداز سے سمجھنا مشکل ہے جس طرح مثال کے طور پر وزن کسی جسم کی صفت ہوتا ہے۔ مشاہدہ مخصوص عوامل کے حوالے کے گرد گھومتا ہے اور یوں یہ عوامل اپنی ایک مخصوص ہستی رکھتے ہیں۔ جیساکہ لیرڈ بیان کرتا ہے وہ پرانی دنیا میں اپنی نئی تشکیل کی بجائے ایک نئی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں۔ دوسرے اگر ہم تجربے کو خواص کے طور پر شمار کرتے ہیں تو ہم یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ وہ روح میں کس طرح موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا شعوری تجربہ روح کے جواہر کی حیثیت سے خودی کی نوعیت کی جانب رہنمائی نہیں کرتا۔ مزید برآں چونکہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک ہی جسم مختلف اوقات میں مختلف ارواح سے کنٹرول کیا جاسکے یہ نظریہ متبادل شخصیت جیسے مظاہر کی کوئی ٹھوس وضاحت نہیں کرتا جن کے بارے میں قبل ازیں یہ بات کہی جاتی تھی کہ وہ بد روحوں کے جسم پر قبضہ کرلینے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

بایں ہمہ خودی تک پہنچنے کے لئے شعوری تجربے کی توجیہہ ہی واحد راستہ ہے۔ لہٰذا آئیے اس کے لئے جدید نفسیات کی طرف متوجہ ہوںاور دیکھیں کہ وہ خودی کی نوعیت پر کیا روشنی ڈالتی ہے۔ ولیم جیمز کے تصور میں شعور "جوئے خیال" ہے' تغیرات کا ایک مسلسل شعوری بہائو۔ اس کے نزدیک یہ ایک مجتمع کرنے والا اُصول ہے جو ہمارے تجربے میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ ۱۹؎ جس پر لگی ہوئی گویا مختلف طرح کی کڑیاں آپس میں پیوست ہو کر ذہنی زندگی کا بہائو بناتی ہیں۔خودی کی تشکیل زندگی کے محسوسات سے ہوتی ہے اور یوں وہ نظام فکر کا حصہ ہے۔ فکر کا ہر موجودہ یا گزرا ہوا ارتعاش ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے جس میں علم اور یادداشت دونوں موجود ہوتے ہیں لہٰذا گزرے ہوئے ارتعاش سے ابھرتے ہوئے ارتعاش اور اس ابھرتے ہوئے ارتعاش سے اس کے بعد ابھرنے والی ارتعاش سے کام لینے کا نام خودی ہے۔ ذہنی زندگی کے بارے میں یہ نقطہ نظر بڑا عالمانہ ہے ۲۰؎ لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ شعور کے میرے ذاتی تجربے پر یہ صادق نہیں آتا۔ شعور ایک وحدت ہے اور ہماری ذہنی زندگی کی اساس ہے: وہ اجزا میں منقسم نہیں کہ جو ایک دوسرے کو باہمی طور پر آگاہ کرتے رہیں۔ شعور کا یہ نقطہ نظر خودی کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہونے کے علاوہ تجربے کے مقابلتاً دائمی عناصر کو بھی پورے طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ ۲۱؎ گزرے ہوئے خیالات کے مابین تسلسل نہیں ہوتا کیونکہ جب ایک خیال موجود ہوتا ہے تودوسرا مکمل طور پر غائب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا گزرا ہوا خیال جو پلٹ نہیں سکتا حاضر خیال سے کیسے جان کر اس سے کام لے سکتا ہے۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ خودی باہم دگر پیوست تجربات ومدرکات کی کثرت سے بالا تر ہے۔ باطنی تجربہ خودی کا ہی عمل ہے۔ خودی ایک تنائو ہے جو خودی کی ماحول پر اور ماحول کی خودی پر یلغار سے عبارت ہے۔ ان باہمی یلغاروں کے دوران خودی کہیں باہر موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ سمت نما کے طور پر موجود رہتی ہے اور خود اپنے تجربے سے منظم ہوتی ہے اور تشکیل پاتی ہے۔ قرآن خودی کے اس سمت نمائی کرنے والے کردار کے بارے میں بڑا واضح ہے۔

وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ أُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً (۸۵: ۱۷)
یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے مگر تم لوگوں کو بہت کم علم ملا ہے۔

اس 'امر ' کے معنی کی تفہیم کے لئے ہمیں اس تفریق کو سمجھنا چاہئے جو قرآن نے امر اور خلق کے درمیان قائم کی ہے۔ پرنگل پیٹی سن کو افسوس ہے کہ انگریزی زبان میں صرف خلق ہی ایک ایسا لفظ ہے جو ایک طرف تو خدا اور وسیع کائنات کے مابین تعلق کو ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف خودی سے خدا کے تعلق کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ عربی زبان اس بارے میں زیادہ خوش قسمت ہے کہ اس میں خلق اور امر دونوں الفاظ موجود ہیں جن کے ذریعے خدا کی دونوں طرح کی تخلیقی سرگرمیاں ہم پر اپناآپ ظاہر کرتی ہیں۔ خلق' تخلیق ہے اور امر' ہدایت ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ 'خلق اور امر (تخلیق اور ہدایت) اسی کے ہیں۔ ۲۲؎ جو آیت اوپر بیان کی گئی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہدایت روح کی فطرت لازمہ ہے کیونکہ اس کا صدور خدا کی رہنمایانہ قدرت سے ہوتا ہے۔ اگرچہ ہم اس حقیقت سے واقف نہیں کہ خدا کا حکم (امر) خودی کی وحدتوں میں کیونکر کارفرما ہے۔ خودی کی ماہیت اور کردار پر مزید روشنی ضمیر متکلم (ربّی: میرا رب) کے استعمال سے پڑتی ہے۔ اس سے یہ مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ اکائی کے تاثر' توازن اور وسعت میں تمام تر اختلافات کے باوجود روح ایک منفرد اور مخصوص جوہر ہے۔ ۲۳؎

قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلیٰ شَاْکِلَتِہٖ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَأَھْدَیٰ سَبِیْلاً
( ۱۵۴:۱۷)

ہر شخص اپنے مخصوص طریقے پر عمل کرتا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے۔

لہٰذا میری حقیقی شخصیت کوئی شے نہیں بلکہ یہ عمل سے عبارت ہے۔ میرا تجربہ صرف میرے اعمال کا تسلسل ہے جو ایک دوسرے کا حوالہ ہیں اور جنہیں رہنما مقصد کی وحدت آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ میری تمام تر حقیقت کا انحصار میرے اسی با امر رویئے میں ہے۔ آپ مجھے مکان میں رکھی ہوئی کسی شے کی طرح نہیں سمجھ سکتے یا تجربات کے ایک مجموعہ کے طور پر جو محض زمانی ترتیب رکھتا ہو۔ اس کے برعکس آپ میری توجیہ' تفہیم اور تحسین میری تصدیقات' میرے ارادوں' مقاصد اور آدرشوں سے کر سکتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ زمان و مکان کے نظم میں خودی کا بروز کیونکر ہوا۔ اس بارے میں قرآن حکیم کی تعلیم بالکل عیاں ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍo ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍمَّکِیْنٍo ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا ء َاخَر (۱۴- ۱۲: ۲۳)

ہم نے انسان کی تخلیق مٹی کے جوہر سے کی پھر اسے ایک محفوظ مقام پر ٹپکی ہوئی بوند کی صورت میں رکھا پھر اسے لوتھڑے کی شکل دی پھر اس لوتھڑے کو گوشت بنایا اور پھر اس گوشت کو ہڈیاں دیں اور گوشت کو ہڈیوں پر منڈھا اور پھر اسے ایک دوسری صورت میں کھڑا کیا

انسان کی یہ "دوسری صورت" طبیعی قوت نامیہ کی بنیاد پر ارتقایاب ہوتی ہے___کمتر خودیوں کی وہ بستی جن کے اندر سے ایک برتر خودی مسلسل مجھ پر عمل پیرا رہتی ہے جس سے مجھے تجربے کی مترتب وحدت کی تعمیر کا موقع ملتا ہے۔ کیا ڈیکارٹ کے مفہوم میں روح اور وجود نامیہ، جو ایک دوسرے سے کسی طرح پر اسرار طور پر ملے ہوئے ہیں' الگ اور خود مختار چیزیں ہیں۔ میرے نزدیک مادے کے خود مختار وجود کا مفروضہ یکسر لغو ہے۔ اس کا جواز صرف حس ہے جس کی مادہ کو مجھ سے الگ کم از کم ایک جزوی علّت گردانا جا سکتا ہے۔ یہ جو مجھ سے الگ ہے اس کے بارے میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ کچھ ایسے خواص سے بہرہ ور ہے جو میرے اندر کے حواس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اور ان خواص پر اپنے اعتقاد کی توجیہ یوں کرتا ہوں کہ علت کی اپنے معلول سے کچھ تو مشابہت ہونی چاہیے۔ لیکن علّت اور معلول کی ایک دوسرے سے مشابہت ضروری نہیں۔ اگر زندگی میں میری کامیابی کسی دوسرے کے لئے دکھ کا باعث بنتی ہے تو میری کامیابی اور اس کے دکھ میں کوئی مشابہت نہیں۔ تاہم روزمرہ تجربہ اور طبیعیاتی سائنس مادے کے مستقل بالذات تصور پر انحصار کرتے ہیں۔ آئیے یہ مفروضہ قائم کریں کہ روح اور جسم ایک دوسرے سے الگ اور آزاد ہیں اور کسی سریت نے ان دونوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ یہ ڈیکارٹ تھا جس نے سب سے پہلے اس مسئلہ کو اٹھایا۔ میں اس کے بیان اور حتمی نقطہ نظر کے بارے میں یقین رکھتا ہوںکہ یہ زیادہ تر مانویت کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو ابتدائی مسیحیت نے اس سے وراثت میں قبول کئے۔ تاہم اگر وہ ایک دوسرے سے الگ اور آزاد ہیں اور باہم اثرانداز نہیں ہوتے تو ان کی تبدیلیاں بالکل متوازی خطوط میں آگے بڑھیں گی جس کے بارے میں لائی بنیز کا خیال تھا کہ ان کے درمیان کوئی پہلے سے طے شدہ ہم آہنگی کام کر رہی ہو گی۔ اس سے روح کا کردار جسم کے تغیرات کے ایک انفعالی تماشائی کا ابھرے گا اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے اور ہم فرض کرتے ہیں کہ روح اور بدن ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں تو ہم کن مشہود حقائق کی بنا پر تعین کر سکتے کہ یہ تعامل کیسے اور کہاں جنم لیتا ہے اور ان میں کون پہلے اثر انداز ہوتا ہے؟ روح جسم کا ایک عضو ہے جو اسے عضویاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے یا جسم روح کا ایک آلہ ہے۔ نظریہ تعامل کی رو سے دونوں ہی قضیے ایک جیسے درست ہیں۔ لانگے کے نظریہ ہیجان کا رخ اس طرف ہے کہ اس باہمی تعامل میں ابتداء جسم کی طرف سے ہوتی ہے ۲۴؎ تاہم کافی شواہد موجود ہیں جن سے اس نظریئے کی تردید ہوتی ہے۔ یہاں ان شواہد کی تفصیل دینا ممکن نہیں۔ یہاں اتنی وضاحت ہی مناسب ہے کہ اگر جسم ابتداء کرے بھی تو ہیجانات کی نمو کے ایک خاص مرحلے پر ذہن اس میں دخل اندازی کرتا ہے اور یہ بات دوسرے مہیجات کے بارے میں بھی اتنی ہی درست ہے جو ذہن پر متواتر کار فرما رہتے ہیں۔ کیا ہیجان مزید نمو کرے گا یا یہ کہ کوئی مہیج اپناکام کرتا رہے گا اس کا دار و مدارمیرے اس سے ربط پر ہے۔ کسی ہیجان یا مہیج کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوتا ہے اس کا آخری دار مدار بھی ذہن کی رضامندی کا ہی مرہون منت ہے۔

یوں نظریہ ہائے متوازیت اور تعامل، دونوں غیر تسلی بخش ہیں۔ جسم اور ذہن دونوں عمل کے دوران ایک ہو جاتے ہیں۔ جب میں اپنی میز پر سے کوئی کتاب اٹھاتا ہوں تو میرا عمل ایک اور ناقابل تقسیم عمل ہے۔ اس عمل میں جسم اور ذہن کے درمیان کسی خط کو کھینچنا بالکل ناممکن ہے۔ کسی نہ کسی طرح دونوں کا تعلق ایک ہی نظام سے ہے اور قرآن حکیم کے مطابق بھی دونوں ایک ہی نظام کے تحت ہے۔ ۲۵؎ خلق (تخلیق) اور امر (حکم) ۲۶؎ اسی کے ہیں' اس صورت حال کا تصور کس طرح ممکن ہے؟ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جسم مطلق خلا میں رکھی ہوئی کوئی چیز نہیں : یہ واقعات یا اعمال کا ایک نظام ہے۔ ۲۷؎ تجربات کا وہ نظام بھی جسے ہم روح کہتے ہیں اعمال کا ایک نظام ہے۔یہ امر واقعہ روح اور جسم میں امتیاز ختم نہیں کرتا بلکہ انہیں ایک دوسرے کے قریب تر لاتا ہے۔ خود روی خودی کی خصوصیت ہے۔ جسم اپنے اعمال کو دہراتا رہتا ہے۔ جسم روح کے اعمال کی مجتمع صورت یا اس کی عادت ہے: اس لئے وہ اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتا۔ یہ شعور کا مستقل حصہ ہے جو اپنے اس مستقل حصہ ہونے کی وجہ سے باہر سے اپنی جگہ پر نظر آتا ہے۔ اب مادہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کمتر خودیوں کی ایک بستی ہے جن میں سے باہمی عمل اور میل جول کے ایک خاص درجۂ ارتباط پر پہنچنے کے بعد ایک برتر خودی جنم لیتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کائنات کسی خارجی ہدایت کی طلب گار ہونے کی بجائے اپنی رہنمائی میں خود مکتفی ہو جاتی ہے اورحقیقت اعلیٰ اس پر اپنے تمام اسرار کھول دیتی ہے اور یوں اپنی ماہیت کے انکشاف کا راستہ دکھا دیتی ہے۔ کمتر خودیوں سے برتر خودی کا نکلنا برتر خودی کے وقار اور اس کی قدر میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ کسی چیز کا مبدا اہم نہیںہوتا بلکہ اس کی صلاحیت، موزونیت اور اس کی آخری رسائی یا مرتبہ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اگر ہم روحانی زندگی کی اساس خالص طبیعی بھی تسلیم کر لیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اپنی پیدائش اور نشو و نما کے بنیادی عنصر میں تحویل ہو سکتی ہے۔ بروزی ارتقاء کا نظریہ رکھنے والوں کے دلائل کی روشنی میں ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ارتقا یافتہ شے اپنی ہستی کے اعتبار سے ایک پہلے سے عقل میں نہ آنے والی اور نادر حقیقت ہے جسے میکانکی انداز میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یقینا ارتقائے حیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے ذہن پر مادہ کی برتری ہوتی ہے۔ پھر جب ذہن قوت پکڑتا ہے تو وہ مادہ پر غلبہ کا رجحان حاصل کر لیتا ہے اور بالآخر وہ اس مادہ پر مکمل برتری حاصل کرکے مکمل طور پر خود مختار ہو سکتا ہے۔ خالص طبیعی سطح کی ایسی کوئی شئے نہیں جو محض مادیت سے عبارت ہو اور جو کسی ایسے تخلیقی مرکب کی نمو نہ کر سکے جسے ہم زندگی اور ذہن کہتے ہیں اور جسے ذہن اور حواس کی آفرینش کے لئے ایک ماورا ہستی کی احتیاج ہو۔ مطلق خودی، جو نمو پانے والی ہستی کا فطرت میں بروز کرتی ہے فطرت کے اندر ہے۔ قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ "ہُوَ الاوّل والاخروالظاہر والباطن" (۳:۵۷) وہ اوّل بھی ہے اور آخر بھی وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی) ۲۸؎

مادے کے بارے میں اس نقطہ نظر سے ایک نہایت اہم سوال اٹھتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ خودی کوئی جامد شئے نہیں ہے۔ وہ اپنی تنظیم زماں میں کرتی ہے اور اپنی تشکیل خود اپنے تجربے کی روشنی میں کرتی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ فطرت سے جوئے تعلیل کا بہائو اسکی طرف اور اس سے فطرت کی طرف رہتا ہے۔ اب کیا خودی اپنی سرگرمیوں کا تعین خودکرتی ہے؟اگر ایسا ہے تو خودی کی اس خود جبریت کا زمان و مکان کے نظام جبریت سے کیا تعلق ہے؟ کیا علتِ ذات ایک مخصوص قسم کی علت ہے یا محض فطرت کی میکانکیت کی ہی ایک مخفی صورت ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دونوں قسم کی جبریت ایک دوسرے سے مختلف نہیں۔ لہٰذا انسانی اعمال پر بھی سائنسی منہاج کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ انسانی سوچ کا عمل محرکات کے تصادم سے عبارت سمجھا جاتا ہے۔ یہ محرکات خودی کے اپنے موجودہ یا موردثی عمل یا بے عملی کے رحجانات پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ یہ بہت سی بیرونی قوتیں ہوتی ہیں جو ذہن کے محاذ پر آتی ہیں اور برسرپیکار رہتی ہیں۔ آخری انتخاب سب سے زیادہ طاقت ور قوت کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ وہ محرکات کی مسابقت کے نتیجے میں خالص طبیعیاتی نہیں ہوتا۔ ۲۹؎ تاہم میری حتمی رائے یہ ہے کہ جبریہ اور قدریہ کے حامیوں کے تصورات، شعوری عمل کے بارے میں غلط خیالات کا نتیجہ ہیں جنہیں جدید نفسیات اس لئے نہیں سمجھ سکی کہ اگرچہ سائنس ہونے کے ناطے اس کی اپنی ایک آزادانہ حیثیت ہے اور اس کے سامنے مشاہدے کے لئے اپنے حقائق ہیں اس نے علوم طبیعی کا غلامانہ اتباع کیا ہے۔ یہ نکتہ نظر کہ خودی کی سرگرمی تصورات اورخیالات کے تسلسل پر مشتمل ہے جنہیں حواس کی اکائیوں میں تحویل کیا جا سکتا ہے جوہری مادیت کی ایک صورت ہے جس نے موجودہ سائنس کی تشکیل کی ہے۔ یہ نکتہ نظر شعور کی جبری تعبیر کے مفروضہ کو تقویت دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔ تاہم جرمنی کی تشاکلی نفسیات میں اس سوچ کی کچھ گنجائش موجود ہے ۳۰؎ کہ نفسیات کو بطور سائنس ایک آزادانہ حیثیت حاصل ہو جائے ۔ اس نئی جرمن نفسیات کی ہمیں تعلیم یہ ہے کہ اگر شعوری کردار کا محتاط مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا انکشاف ہوگا کہ اس میں حواس کے تواترکے ساتھ ساتھ بصیرت بھی کار فرما ہوتی ہے۔ ۳۱؎ یہ بصیرت اشیاء کے زمانی، مکانی اور تعلیلی رشتوں کے ادراک کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ اس عمل انتخاب سے عبارت ہے جس سے خودی اپنے متعین کردہ مقاصد کے پیش نظر گزرتی ہے۔ کسی بامقصد عمل کے تجربے کے درمیان ملنے والی کامیابی کا احساس جو مجھے میرے مقاصد تک رسائی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے مجھے اپنی ذاتی علیت اور عمدہ کارکردگی کا یقین دلاتا ہے کہ ایک بامقصد عمل کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مستقبل کی صورت حال کے بارے میں وژن موجود ہو جس کی علم عضویات کی اصطلاحوں میں کسی قسم کی کوئی توضیح ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم علتی سلاسل میں خودی کے لئے جو گنجائش نکالتے ہیں وہ خودی کے اپنے مقاصد کے لحاظ سے خود اس کی اپنی وضع کردہ مصنوعی تشکیل ہے۔ خودی ایک پیچیدہ ماحول میں زندگی کرتی ہے اور اس وقت تک خود کو برقرار نہیں رکھ سکتی جب تک وہ اس ماحول کو نظم میں نہ لے آئے تاکہ اسے ارد گرد کی چیزوں کے کردار کے بارے میں کچھ نہ کچھ وثوق اور اعتماد حاصل ہو جائے۔ ماحول کوعلت و معلول کا نظام خیال کرنا خودی کا ایک ناگزیر آلہ ہے نہ کہ فطرت کی ماہیت کا حتمی اظہار۔ یقینا فطرت کی یوں تعبیر کرتے ہوئے خودی اپنے ماحول کو بہتر سمجھتی ہے اور اس پر حاوی ہو جاتی ہے اور اس طرح آزادی اور اختیار حاصل کرتی ہے اور اسے وسعت دیتی ہے۔۳۲؎

خودی کے عمل میںرشد و ہدایت اور بامقصد نظم و ضبط کا عنصر یہ ظاہر کرتا ہے کہ خودی ایک آزاد علتِ ذاتی ہے جو خودی مطلق کی زندگی اور آزادی میں شریک ہے۔ مطلق خودی نے آزاد و خود مختار و متناہی خودی کا بروز گوارا کرکے خود اپنی آزادی کو محدود کر لیا ہے۔ اس شعوری کردار کی آزادی کی تائید قرآن حکیم کے نقطہ نظر سے بھی ہو جاتی ہے جو وہ خودی کے عمل کے بارے میں رکھتا ہے۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیات اس سلسلے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتیں:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ وقف فَمَنْ شَآئَ فَلْیُئْو مِنْ وَمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ (۲۹:۱۸)
کہئے یہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے۔ اب تم میں سے جو چاہے تسلیم کرے اور جو چاہے کفر کرے۔
إِنْ أَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ وَإِنْ اَسَأْتُمْ فَلَھَا(۷:۱۷)
تم نے احسان کیا تو اپنے ہی نفس پرکیا اور بدی کی تو خود اپنے آپ سے کی۔

یقینا اسلام انسانی نفسیات کی اس نہایت اہم حقیقت کوتسلیم کرتا ہے کہ آزادیِ عمل کی قوت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ تاہم خودی کی خواہش یہ ہے کہ اس کی زندگی میں یہ قوت ایک مستقل اور نہ ختم ہونے والے عنصر کی حیثیت سے بحال رہے۔ قرآن کے مطابق ہماری روزانہ نماز کے اوقات میں یہ خوبی ہے کہ وہ زندگی اور آزادی دینے والے مبداء سے خودی کو قریب تر کرکے اسے اپنی ذات پر قابو پانے کا موقعہ دیتے ہیں اور اسے نیند اور کاروبار زندگی کے میکانکی اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اسلام میں نماز ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ذریعے خودی کو میکانکی جبر سے آزادی کی طرف گریز کا موقع ملتا ہے۔

تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ قرآن میں تقدیر کا تصور جا بجا ملتا ہے۔ یہ بات بڑی غور طلب ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ فریڈرک اشپنگلر نے اپنی معروف کتاب "زوال مغرب" میں اس نکتہ نظر کا اظہارکیا ہے کہ اسلام خودی کی مکمل نفی کرتا ہے۔ ۳۳؎ میں نے قبل ازیں تقدیر کے بارے میں قرآن کے نکتہ نظر کی توضیح کی ہے۔۳۴؎ اب جیسا کہ اشپنگلر خود بیان کرتاہے ہم اپنی دنیا کی تعمیر دو طرح سے کر سکتے ہیں، ایک طریقہ عقلی ہے اور دوسرے کو ہم کسی بہتر لفظ کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے 'حیاتیاتی' کہہ سکتے ہیں۔ عقلی طریقے میں دنیا علّت و معلول کے ایک جامد نظام کی تفہیم کا نام ہے جبکہ حیاتیاتی طریقے میں ہم زندگی کے ناگزیر جبر کو قبول کر لیتے ہیں جو اپنے داخلی تنوع کا اظہار کرتے ہوئے زمان مسلسل کی تخلیق کرتی ہے۔ کائنات کو اپنانے کا یہ طریق کار قرآن میں 'ایمان' سے تعبیر ہوا ہے۔ ایمان مختلف نوع کے قضیوں پر مشتمل محض ایک انفعالی اعتقاد نہیں بلکہ یہ ایک نادر تجربے سے حاصل شدہ زندہ ایقان ہے۔ اس تجربے اور اس سے منسلک ارفع قسم کی جبریت کی اہلیت صرف مضبوط اور مستحکم شخصیات ہی کو میسر ہوتی ہے۔ روایت ہے کہ نپولین کہا کرتا تھا کہ "میں شئے ہوں شخص نہیں"۔ یہ بھی ایک انداز ہے جس سے وحدت کا تجربہ اپنا اظہارکرتا ہے۔ اسلام میں مذہبی تجربہ آنحضرت ﷺکے مطابق صاحب تجربہ میں خدائی صفات پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس تجربے کا اظہار ایسے جملوں میں ہوا ہے کہ : "انا الحق"'میں ہی تخلیقی سچائی ہوں" (حلاّج) "اناالدھر" "میں وقت ہوں" (محمد ﷺ) "میں قرآن ناطق ہوں" (علیؓ) "میں عظیم الشان ہوں" (بایزید بسطامی)۔ اسلام کے اعلیٰ تصوف میں وحدت کا یہ تجربہ متناہی خودی کے لامتناہی خودی میں گم ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ لامتناہی خودی ہے جو متناہی کو اپنی آغوش میںلے لیتی ہے۔ ۳۵؎ جیسا کہ مولانا جلال الدین رومی اپنی مثنوی کے اس شعر میں اظہار کرتے ہیں:

علم حق در علم صوفی گم شود
ایں سخن کے باور مردم شود

علم حق صوفی کے علم میں گم ہو جاتا ہے مگر یہ بات عام آدمی کو کس طرح باور کرائی جا سکتی ہے۔

تاہم جیسا کہ اشپنگلر کا خیال ہے تقدیر کا اس رویے پر اطلاق خودی کی نفی نہیں بلکہ یہ زندگی اور غیر محدود قوت ہے جو کسی رکاوٹ کو نہیں جانتی۔ وہ ایک انسان کو اطمینان سے اس کی نمازوں کی ادائیگی کے قابل بنا دیتی ہے خواہ اس کے چاروں طرف گولیوں کی بوچھاڑ ہی کیوں نہ ہو۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ صدیوں سے اسلامی دنیا میں تقدیر کا ایک نہایت پست تصور رائج ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے۔ اس کے پیچھے بھی ایک تاریخی پس منظر ہے جس پر الگ بحث ہوسکتی ہے۔ یہاں صرف اتنا ہی کہہ دیناکافی ہے کہ اسلام میں اس طرح کی تقدیر پرستی جس پر اہل یورپ معترض ہوتے ہیں اور جسے ایک لفظ قسمت میں بیان کیا جا سکتا ہے وہ کچھ تو فلسفیانہ فکر اور کچھ سیاسی مصلحت بینی کے باعث ہے اور کچھ اس حیات بخش قوت کے بتدریج زوال کا نتیجہ ہے جو ابتداء میں اسلام نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کی تھی۔ فلسفے نے جب علّت کے مفہوم کی خدا پر اطلاق کی بحث چھیڑی اور زمان کو علت و معلول کے درمیان رشتے کا جوہر تصور کیا گیا تو ایک ایسے خدا کا تصور لازمی طور پر ابھرا جو کائنات سے ماوراء ہے، اس سے متقدم ہے اور باہر سے اس پرعمل کر رہا ہے۔ خدا کو علت و معلول کی زنجیر کی آخری کڑی تصور کیا گیا۔ نتیجۃً یہ کہا گیا کہ جو کچھ بھی کائنات میں ہو رہا ہے وہ خدا کی مرضی اور منشا ہے۔ دمشق کے موقع پرست اموی حکمرانوں کی عملی مادیت کو ایک ایسے کھونٹے کی ضرورت تھی جس پر وہ کربلا جیسے اپنے مظالم کو ٹانک سکیں اور ان ثمرات کو تحفظ دے سکیں جو حضرت امیر معاویہؓ کی بغاوت کے نتیجے میں انہیں حاصل ہوئے تھے تاکہ ان کے خلاف کوئی عوامی انقلاب جنم نہ لے سکے، روایت ہے کہ قدر یہ کے ایک ممتاز عالم معبد الجیہنی نے حضرت حسن بصری سے سوال کیا کہ اموی حکمران مسلمانوں کو بلاوجہ قتل کرتے ہیں اور اس قتل کو رضائے الٰہی قرار دیتے ہیں۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ "وہ خدا کے دشمن اور جھوٹے ہیں"۔ ۳۶؎ علمائے حق کے کھلے احتجاج کے باوجود تب سے یہ تقدیر پرستی کا فتنہ پروان چڑھا ہوا ہے اور وہ دستوری نظریہ بھی جسے 'مراعات یافتہ' کہا جاتا ہے۳۷؎ تاکہ بالادستوں کی آقائی اور مفادات کو عقلی جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہ کوئی اتنی حیران کن بات نہیں کیونکہ خود ہمارے اپنے زمانے میں بعض فلاسفہ نے موجودہ سرمایہ دارانہ معاشرے کی قطعیت کے لئے ایک طرح کا عقلی جواز فراہم کیا ہے۔ ہیگل کا حقیقت مطلقہ کو عقل کی لامتناہیت سے عبارت قرار دینا جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ معقول ہی حقیقت ہے اور آگست کامت کا معاشرے کو جسم نامی قرار دینا جس میں جسم کے ہر عضو کو دوامی طور پر کچھ مخصوص صفات سے متصف کیا گیا ہے اس کی مثالیں ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایسی ہی صورت حال اسلام میں بھی پیش آئی مگر چونکہ مسلمان اپنے ہر بدلتے ہوئے روّیے کا جواز قرآن سے لانے کے عادی ہیں خواہ اس کے دوران انہیں اس کے سادہ مفہوم کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے ان کی تقدیر پر ستانہ تاویل کا مسلمانوں پر بہت گہرا اثر ہوا ہے۔ یہاں میں اس حوالے سے غلط تاویلات کی متعدد مثالیں پیش کر سکتا تھا۔ تاہم یہ موضوع خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بقائے دوام کے سوال پر توجہ کروں۔

بقائے دوام کے سوال پر کسی بھی عہد میں اس قدر ادب تخلیق نہیں ہوا جس قدر کہ ہمارے اپنے عہد میں ضبط تحریر میں آیا ہے۔ جدید مادیت کی فتوحات کے باوجود اس موضوع پر تحریروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم خالصتًا مابعد الطبیعیاتی دلائل ہمیں ذاتی بقائے دوام پر مثبت ایقان نہیں دے سکے۔ دنیائے اسلام میں قاضی ابن رشد نے مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے بقائے دوام کے مسئلہ پر غور کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ نتیجہ خیز نہیں رہا۔ اس نے حس اور عقل میں امتیاز کیا جس کی اساس شاید قرآن میں نفس اور روح کے الفاظ ہیں۔ ان الفاظ سے بظاہر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انسان میں ایک دوسرے کے مخالف دو اصول کارفرما ہیں۔ اس سے بہت سے مسلمان فلاسفہ نے غلط معانی نکالے ہیں۔ اگر ابن رشد نے اس ثنویت کی بنیاد قرآن کو بنایا ہے تو اس نے غلط کیا ہے کیونکہ قرآن میں نفس تکنیکی طور پر ان معانی میں استعمال نہیں ہوا جو مسلم متکلمین نے خیال کیا ہے۔ ابن رشد کے نزدیک عقل جسم کا کوئی خاصہ نہیں: اس کا تعلق کسی اور نظام وجود سے ہے اور یہ انفرادیت سے ماورا ہے۔ لٰہذا یہ ایک ہے۔ یہ آفاقی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس کا لازمی طور پر مطلب یہ ہے کہ چونکہ وحدانی عقل ماورائے انفرادیت ہے اس کا انسانی شخصیت کی متعدد وحدتوں میں ظہور فریب نظر ہے۔ عقل کی وحدت کی دوامیت کا مفہوم جیسا کہ رینان کا خیال ہے انسانیت اور تہذیب کی ابدیت سے عبارت ہے۔ اس کا مطلب ذاتی بقائے دوام ہرگز نہیں۔ ۳۸؎ درحقیقت ابن رشد کا نقطہ نظر ولیم جیمز کی شعور کی ماورائی میکانکیت کی طرح ہے جو تھوڑی دیر کے لئے طبیعی معمول پر عمل کرتی اور پھر وہ اسے خالص کھیل کے انداز میں چھوڑ دیتی ہے۔۳۹؎

دور جدید میں ذاتی بقائے دوام کے لیے مجموعی طور پر دلیل کا رخ اخلاقی ہے۔ مگر کانٹ کی طرح کے اخلاقی دلائل اور ان دلائل کی ترمیم شدہ صورتیں اس اعتماد کو اپنی بنیاد بناتی ہیں کہ عدل کے تقاضوں کی تکمیل ہو گی یا یہ کہ لامتناہی مقاصد کے متلاشی ہونے کی حیثیت سے انسان کے اعمال کی مثال اور ان کا کوئی بدل ممکن نہیں۔کانٹ کا تصور بقائے دوام قیاس و دلیل کی حدود سے پرے ہے۔ وہ محض عقلِ عملی کا مسلمہ اُصول اور انسان کے اخلاقی شعور کی بدیہی اساس ہے۔ انسان خیر اعلیٰ کا طلب گار اور متلاشی ہے جو نیکی اور مسرت دونوں پر مشتمل ہے مگر کانٹ کے نزدیک مسرت اور نیکی' فرض اور میلان مختلف النوع تصورات ہیں۔ حواسی دنیا میں انسانی زندگی کے نہایت مختصر عرصے میں ان کی وحدت کا حصول ممکن نہیں۔ لہٰذا ہم ایک ابدی زندگی کا تصور اپنانے پر مجبور ہیں تاکہ انسان بتدریج نیکی اور مسرت کے متباعد تصورات کو باہم یکجا کر سکے اور ایک ایسے خدا کا وجود ثابت ہو سکے جو اس اتصال کو موثر بناتا ہے۔ تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ نیکی اور مسرت کی تکمیل کے لیے لامتناہی وقت کیوں درکار ہے اور خدا سے کس طرح متبائن نظریات کا اتصال اور ان کی تکمیل ہو سکے گی۔ مابعد الطبیعیات کے غیر نتیجہ خیز دلائل کے پیش نظر بہت سے مفکرین نے اپنے آپ کو جدید مادیت کے اعتراضات کا جواب دینے تک محدود کر لیا ہے جو بقائے دوام کو مسترد کرتی ہے۔ اس کے نزدیک شعور محض دماغ کا وظیفہ ہے جو دماغ کے ختم ہونے کے ساتھ ہی دم توڑ دیتا ہے۔ ولیم جیمز کا خیال ہے کہ بقائے دوام پر یہ اعتراض محض اسی صورت میں درست ہو گا کہ وظیفہ سے مراد ثمر آور وظیفہ ہو۔ ۴۰؎ یہ حقیقت کہ بعض ذہنی تغیرات بھی جسمانی تغیرات کے ساتھ متوازی طور پر رونما ہو تے ہیں اس بات کے لیے کافی دلیل نہیں کہ ذہنی تغیرات جسمانی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ وظیفہ کا بار آور ہونا ہی ضروری نہیں' یہ جوازی یا ترسیلی بھی ہو سکتا ہے جس طرح عکس ریز شیشے یا بندوق کے گھوڑے کا عمل ۔ ۴۱؎ یہ نقطہ نظر جس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ ہماری باطنی زندگی ہمارے اندرونی عمل کے باعث ہے جو شعور کی ماورائی جبریت کی طرح کی کوئی چیز ہے جو اپنے عمل کے دوران کچھ دیر کیلئے طبیعیاتی وسیلہ بھی اپنا لیتی ہے ہمارے اصل عمل کے اجزائے ترکیبی کے برقرار رہنے کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہیں کراتا۔ میں نے مادیت کے مسئلے سے نپٹنے کے لیے ان خطبات میں پہلے ہی اشارات دیئے ہیں۔ ۴۲؎ سائنس لازمی طور پر حقیقت کے مخصوص پہلوئوں کواپنے مطالعہ کے لئے منتخب کر لیتی ہے اور دوسرے پہلوئوں کو چھوڑ دیتی ہے۔ یہ سائنس کی محض ادعائیت ہے کہ یہ دعویٰ کرے کہ حقیقت صرف وہی ہے جس کو سائنس اپنے مطالعہ کے لئے منتخب کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی زندگی کا ایک پہلو مکانی بھی ہے مگر اس کا صرف یہی پہلو نہیں ہے۔ کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں مثلاً قدر پیمائی، بامقصد تجربے کی یکتائی اور صداقت کی تلاش جنہیں سائنس لازمی طور پر اپنے مطالعے کے دائرے سے خارج کر دیتی ہے اور جنہیں جاننے کے لئے کچھ ایسے مقولات کی ضرورت ہے جو سائنس استعمال نہیں کرتی۔ ۴۳؎

جدید دور کی تاریخ فکر میں بقائے دوام کے بارے میں ایک مثبت نکتہ نظر سامنے آیا ہے۔ میری مراد فریڈرک نیٹشے کا نظریہ رجعت ابدی ہے۔ ۴۴؎ اس نظریے کا حق ہے کہ اس پر بات کی جائے، صرف اس لئے نہیں کہ نیٹشے نے پیغمبرانہ عزم سے اس کو پیش کیا ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں جدید ذہن کے رحجانات کا سراغ ملتا ہے۔ یہ تصور جب شاعرانہ الہام کی طرح نیٹشے پر اترا عین اسی وقت یہ اور بھی بہت سے ذہنوں میں پیدا ہوا ۔ اور اس کے جراثیم ہربرٹ سپنسر کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ ۴۵؎ یقینا منطقی استدلال سے کہیں بڑھ کر اس خیال کی اپنی قوت تھی جس نے عصر جدید کے اس پیامبر کو متاثر کیا۔ یہ خود اس حقیقت کی بھی دلیل ہے کہ بنیادی حقیقتوں کے بارے میں مثبت نکتہ نظر مابعد الطبیعیاتی سے زیادہ القائی اور الہامی ہوتا ہے۔ تاہم نیٹشے نے جو نظریہ پیش کیا وہ مدلّل اور جچا تلا ہے اور اس لئے میرا خیال ہے کہ ہمیں اس کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ یہ نظریہ اس مفروضے پر قائم ہے کہ کائنات میں توانائی کی مقدار متعین ہے اور اس لئے متناہی ہے۔ مکان کی صرف ایک موضوعی صورت ہے۔ چنانچہ یہ ایک بے معنی بات ہے کہ دنیا خلا کے اندر واقع ہے۔ زمان کے بارے میں اپنے نکتہ نظر میں نیٹشے، عمانومل کانٹ اور شوپہنار سے الگ ہو جاتا ہے۔ زمان کی کوئی موضوعی صورت نہیں۔ یہ ایک حقیقی اور لامتناہی عمل ہے جو صرف امتداد میں متصور ہوتا ہے۔ ۴۶؎ یہ بات واضح ہے کہ ایک لامتناہی سنسان خلا میں توانائی کا انتشار ممکن نہیں۔ مراکز توانائی بہت گنے چنے ہیں اور ان کے مرکبات بھی شمار کئے جا سکتے ہیں۔متغیر توانائی کی کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی نہایت اور نہ ہی یہ متوازن ہے اور اس میں اول و آخر بھی نہیں۔ اب جب کہ زمان لامتناہی ہے تو توانائی کے تمام ممکنہ مرکبات بھی اب تک بن چکے ہیں۔ کائنات میں کوئی شئے نئی واقع نہیں ہو رہی۔ جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ پہلے بھی لاتعداد مرتبہ ہو چکا ہے اور آئندہ بھی لاتعداد مرتبہ ہوگا۔ نیٹشے کے نکتہ نظر سے کائنات میں واقعات کے رونما ہونے کا نظام لازمی طور پر متعین اور ناقابل تغیر ہونا چاہئے۔ چونکہ لامتناہی زمان گزر چکا ہے توانائی کے مراکز اب تک کردار کے مخصوص اور متعین رویے اپنا چکے ہوں گے۔ 'رجعت' کے لفظ میں تعین کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ مزید، ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ توانائی کے مراکز کا جو مرکب بن گیا ہے وہ ہمیشہ ناگزیر طور پر بار بار آتا ہے ورنہ فوق البشر کی واپسی بھی ناممکن ہوگی۔

"ہر شئے لوٹ آتی ہے شکاری کتا ہو یا جالا بننے والی مکڑی اور وہ خیالات جو اس لمحے آپ کے ذہن میں ہیں یا آپ کا آخری خیال، ہر شئے لوٹ آنے والی ہے۔ دوستو! تمہاری تمام زندگی ایک ریت گھڑی کی مانند ہے جو ہمیشہ بھرتی اورخالی ہوتی رہتی ہے یہ چکر وہ دانہ و دام ہے جس میں آپ اسیر ہیں، جو چمکتا رہے گا اور ہمیشہ تروتازہ رہے گا"۔۴۷؎

یہ ہے نیٹشے کا نظریۂ رجعت ابدی، یہ ایک متشدد قسم کی جبریت سے عبارت ہے۔ اس کی بنیاد کسی تحقیق شدہ علمی حقیقت پر نہیں بلکہ سائنس کے ایک آزمائشی مفروضے پر قائم ہے۔ نہ ہی نیٹشے نے زمان کے سوال کو سنجیدگی سے اپنی فکر کا مرکز بنایا ہے۔ وہ اسے موضوعی سمجھتا ہے اور محض واقعات کے لامتناہی تسلسل کے مفہوم میں لیتاہے جوخود ہی بار بار تکرار کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اس طرح زمان کو گردش مستدیر مان لینے سے بقائے دوام بالکل ہی ناقابل برداشت تصور بن جاتا ہے۔ نیٹشے کو خود اس کا احساس تھا۔اور اس نے اپنے نظریے کو بقائے دوام کے طور پر نہیں لیا بلکہ نظریۂ حیات کے طور پر بیان کیا ہے جو بقائے دوام کے تصور کو قابل برداشت بنا دیتا ہے۔ ۴۸؎ نیٹشے کے نزدیک بقائے دوام کا یہ نظریہ قابل برداشت کیونکر ہو سکتا ہے؟ نیٹشے کی توقع یہ ہے کہ توانائی کے مراکز مرکب کی تکرار جو میرے وجود میں رکھی گئی ہے لازمی طور پر وہ محرک ہے جومثالی مرکب کی پیدائش کا باعث بنتی ہے جس کو نیٹشے سپر مین یا فوق البشر کہتا ہے۔ مگر فوق البشر پہلے ہی لاتعداد دفعہ معرض وجود میں آچکا ہے۔ اس کی پیدائش ناگزیز ہے۔ ایسے میں مجھے اس کے ہونے سے کیا آدرش مل سکتاہے۔ کیونکہ ہم تو صرف اس سے آدرش پاتے ہیں جو بالکل نیا ہو۔ جبکہ نیٹشے کے فکر میں کسی 'نئے' کا کوئی تصور موجود نہیں۔ نیٹشے کا نظریہ تقدیر اس تصور سے بھی بدتر ہے جسے ہمارے ہاں قسمت کے لفظ میں بیان کیاجاتا ہے۔ ایسا نظریہ انسان کو زندگی کی تگ و تاز میں سرگرم رکھنے کی بجائے اس کے عملی رجحانات کو برباد کرنے اور خودی میں سست روی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ۴۹؎

آئیے اب قرآن کی تعلیمات کی طرف لوٹ کر دیکھیں کہ انسانی تقدیر کے بارے میں اس نے کیا نکتہ نظر اختیار کیا ہے۔ یہ جزوی طور پر اخلاقی اور جزوی طور پر حیاتیاتی ہے۔ میں نے اسے جزوی طور پر حیاتیاتی اس لئے کہا ہے کہ قرآن نے اس ضمن میں حیاتیاتی نوعیت کے بیانات دیئے ہیں کہ ہم انہیں اس وقت تک سمجھ نہیں سکے جب تک ہم زندگی کی ماہیت کے بارے میں گہری بصیرت کا مظاہرہ نہ کریں۔ مثلاً یہاں برزخ کی حقیقت کا ذکر مناسب ہوگا ۵۰؎ جو موت اور حشر کے درمیان توقف کی ایک التوائی کیفیت قرار دی جا سکتی ہے۔ حشر کا تصور بھی مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ قرآن کا حشر کا تصور اس امکان پر منحصر نہیں جو عیسائیت کی طرح کسی تاریخی شخصیت کے حقیقی حشر کی شہادت پر اپنی اٹھان رکھتا ہو۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک حشر ایک عالمگیر مظہر حیات ہے بلکہ کسی حد تک اس کے مفہوم کا اطلاق پرندوں اور حیوانات پر بھی ہوتا ہے۔ (۳۸:۶)

اس سے پہلے کہ ہم قرآن کے ذاتی بقائے دوام کے نظریہ کی تفصیلات پر اظہار خیال کریں ہمیں تین چیزوں کو ذہن نشین کر لینا چاہئے جو قرآن حکیم میں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں اور ان کے بارے میں نہ تو کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی کوئی اختلاف رائے ہونا چاہئے۔

-i خودی کی شروعات زمان میں ہوئی اور اس کا مکانی و زمانی نظم سے پہلے وجود نہ تھا۔ یہ بات اس آیت سے واضح ہے جس کا میں نے چند منٹ قبل حوالہ دیا ہے۔ ۵۱؎
-ii قرآن کے نقطہ نظر سے زمین پر واپسی کاکوئی امکان نہیں یہ بات مندرجہ ذیل آیات سے واضح ہے۔
حَتّٰیٰٓ إِذَا جَآئَ اَحَدَہُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِo لَعَلِّیٓ أَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّآط اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَاط وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ إِلَیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (۱۰۰- ۹۹:۲۳)

حتی کہ جب ان میں سے کسی کو موت آگے گی تو وہ کہے گا۔ اے میرے رب مجھے دنیا میں لوٹا دے تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ کر آیا ہو اس میں نیک کام کروں، بالکل نہیں یہ تو محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے ان کے پیچھے ایک برزخ ہے جو موت کے بعد حشر میں ان کے دوبارہ اٹھائے جانے تک ہے۔

وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ o لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۱۹-۱۸:۸۳)
اور چاند کی قسم جب وہ پورا ہو جائے۔ بلا شک تمہیں ایک کے پیچھے ایک چڑھائی چڑھنا ہے۔
أَفَرَئَ یْتُمْ مَّاتُمْنُوْنَoئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الْخَالِقُوْنَ o نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمْ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ o عَلَیٰٓ أَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِئَکُمْ فِیْ مَالَا تَعْلَمُوْنَ (۶۱-۵۶:۵۶)

پھر کیاتم نے دیکھا کہ تم جو قطرہ ٹپکاتے ہو اسے زندگی ہم دیتے ہیں یا تم، ہم نے تم میں موت رکھی ہم تمہاری تخلیق کو نہیں بدلیں گے تمہیں اس انداز سے اٹھائیں گے کہ جو تم نہیں جانتے

-iii متناہی ہونا بدقسمتی کی بات نہیں إِنَّ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ اِلَّآ ء َاتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا o لَقَدْ اَحْصٰہُمْ وَعَدَّہُمْ عَدًّا o وَکُلُّہُمْ ئَ اتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا (۹۵-۹۳:۱۹)

آسمانوں اور زمین میں کوئی نہیں کہ وہ بندہ ہو کر اس کے ہاں نہ آئے۔ اس نے سب کچھ گھیر رکھا ہے اور انہیں گن رکھا ہے اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلا اکیلا آنے والا ہے۵۲؎

یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے اور اسلام کے نظریہ نجات کے بارے میں ایک شفاف بصیرت حاصل کرنے کے لئے اس کو صحیح طریقے سے جاننا بہت ضروری ہے۔ اپنی فردیت کے ناقابل تغیر اکلاپے کے ساتھ متناہی خودی، لامتناہی خودی کے سامنے پیش ہو گی، تاکہ اپنے ماضی کے اعمال کے نتائج دیکھ لے۔

وَکُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنٰہُ طٰئِٓرَہُ فِیْ عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِکِتٰبًا یَلْقٰہُ مَنْشُوْرًاo اِقْرَأْ کِتٰبَکَط کَفَیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(۱۴-۱۳:۱۷)
ہر انسان کے مقدر کا طوق ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے اور ہم روز حساب اس کے اعمال کی کتاب نکالیں گے جوایک نوشتہ ہوگا اور اسے کہا جائے گا کہ اس کتاب کو پڑھو اب تو خود اپنا حساب کرنے کے لئے کافی ہے ۵۳؎

انسان کا حتمی مقدر جو کچھ بھی ہو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اپنی انفرادیت کھو دے گا۔ قرآن نے انسان کی مسرت کی انتہائی حالت متناہت سے مکمل آزادی کو قرار نہیں دیا۔۵۴؎ ا نسان کا اعلیٰ ترین مقام اس کی انفرادیت اور ضبط نفس میں بتدریج ارتقاء اور خودی کی فعالیت کی شدت میں اس قدر اضافہ ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے کی عالمگیر تباہی بھی اس کی ارتقایاب خودی کے کامل سکون کو متاثر نہیں کر سکے گی۔

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اﷲُط ( ۶۸:۳۹)
اس دن جب صور پھونکا جائے گا اور وہ سب مرکر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں سوائے ان کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے گا ۵۵؎

یہ استثنیٰ کس کے لئے ہے؟ یہ صرف ان لوگوں کے لئے ہے جن کی خودی اپنی شدت کے نقطہ عروج پر ہوگی۔ ترقی کا یہ ارفع مقام صرف اس صورت میں آتا ہے جب خودی اپنے آپ کو مکمل طور پر خود برقرار رکھ سکے گی: اس صورت میں بھی جب خودی کا براہ راست تعلق سب پر محیط خودی سے ہوگا جیسا کہ قرآن حکیم، رسول پاک ﷺ کے خودیِ مطلق کے دیدار کے بارے میں کہتا ہے:

مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَیٰ o (۱۷:۷۳)
نہ تو نگاہ ہٹی اور نہ اس نے تجاوز کیا

ایک مثالی اور مکمل انسان کا اسلام میں یہی تصور ہے۔ ادبی اسلوب میں اس منظر نامے کا فارسی زبان کے اس شعر میں سب سے بہتر اظہار ہوا ہے جس میں نبی پاک ﷺ کے تجلی الٰہی کے روبرو ہونے کا تجربہ بیان ہوا ہے۔

موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوئہ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی
خدا کی صفات کے ایک ہی جلوے سے حضرت موسٰیؑ کے ہوش اڑ گئے جب کہ آپؐ نے خدا کی ذات کو مُتبسّم ہوکر دیکھا ۵۶؎

یہ واضح رہے کہ وحدت الوجودی تصوف اس نکتہ نظر کی حمایت نہیں کر سکتا۔ وہ اس میں فلسفیانہ نوعیت کے اشکالات کی جانب اشارہ کرے گا۔ لامتناہی خودی اور متناہی خودی کو کس طرح ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ کیامتناہی خودی اپنی متناہیت کو لامتناہی خودی کے بالمقابل برقرار رکھ سکتی ہے۔ یہ اشکال لامتناہی خودی کی ماہیت کے بارے میں غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقی لامتناہیت کا مفہوم لامتناہی وسعت نہیں جس کا میسر متناہی وسعتوں کا احاطہ کئے بغیر تصور کرنا ممکن نہیں۔ اس کی ماہیت کا انحصار اس کی شدت میں ہے وسعت میں نہیں۔ جس لمحے ہم اپنی توجہ شدت کی جانب کرتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ متناہی خودی لازمی طور پر لامتناہی خودی سے ممتاز اور منفرد ہے گرچہ وہ اس سے الگ نہیں۔ وسعت کے لحاظ سے میں اپنے زمان و مکان کے نظام کا حصہ ہوں لیکن اگر شدت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو میں زمان و مکان کے اس نظام کے مقابل کھڑا ہوں اور یہ نظام میرے لئے یکسر غیر ہے۔ میں اس سے امتیازی حیثیت بھی رکھتا ہوں اور اس سے وابستہ بھی ہوںجس پر میری زندگی اور وجود کا دار و مدار ہے۔

ان تین نکات کو واضح طور پر سمجھ لیا جائے تو باقی کا نظریہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے یہ انسان کے بس میں ہے کہ کائنات کے مقصود و مدعا میں حصہ لیتے ہوئے بقائے دوام حاصل کر لے۔

أَیَحْسَبُ الإِْنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo اَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنَیٰ o ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّیٰo فَجَعَلَ مِنْہُ الّزَوْجَیْنِ الذَّکَرَوَالْأُنْثَیٰٓo أَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلَیٰٓ أَنْ یُحْیِ الْمَوْتَیٰ (۴۰- ۳۶:۷۵)
کیا انسان سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا کیا وہ ٹپکا ہوا منی کا ایک قطرہ نہ تھا پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اسے تخلیق کیا گیا پھر اس کی صورت بنائی گئی پھر اس سے دونوں جنسیں بنائی گئیں مرد اور عورت۔ کیا خدا اس پر اختیار نہیں رکھتا کہ وہ مُردوں کو زندگی بخش دے

یہ کس قدر بعید از قیاس بات ہے کہ وہ ذات جس کے ارتقا کو کروڑوں سال لگے اسے ایک بے کار شے کی طرح پھینک دیا جائے۔ تاہم صرف ہر دم ترقی کرتی ہوئی خودی ہی کائنات کے مقصود سے وابستہ ہو سکتی ہے۔

وَنَفْسٍ وَمَا سَوّٰھَا o فَأَلْھَمَہَا فَجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰہَا (۱۰- ۷:۹۱)
نفس کی قسم ہے اور جیساکہ اس کو بنایا گیا پھر اسے فسق وفجور اور بچ بچا کر چلنے کی سمجھ الہام کی گئی ہے۔ فلا ح پائی اس نے جس نے اپنے آپ کو بچایا اور گھاٹے میں رہا وہ شخص جس نے اپنی راہ کھوٹی کی۔

روح اپنے آپ کو کس طرح ترقی کے راستے پر ڈال سکتی ہے اور بربادی سے بچ سکتی ہے؟ جواب ہے: عمل سے
تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلَیٰ کُلِِِِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ (۳-۱:۶۷)
وہ ذات بابرکت ہے جس کے ہاتھوں میں بادشاہت ہے اوروہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، وہی ذات ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو اچھے عمل سے آزمائے اور وہ باقوت اور بخش دینے والا ہے۵۷؎

زندگی خودی کی سرگرمیوں کے لئے مواقع فراہم کرتی ہے اور موت خودی کے ترکیبی عمل کا پہلا امتحان ہے۔ کوئی عمل بھی مسرت افزا یا اذیت ناک نہیں ہوتا: وہ صرف خودی کو قائم رکھنے والا یا اس کو برباد کرنے والا ہوتا ہے۔ خودی کو اعمال ہی زوال کی طرف لے جاتے ہیں یا انہیں مستقبل کے کردار کے لئے تربیت فراہم کرتے ہیں۔ خودی کو برقرار رکھنے والے عمل کا اصول ہے کہ ہم دوسروں کی خودی کے احترام کے ساتھ ساتھ اپنی خودی کابھی احترام کریں۔ چنانچہ ذاتی بقائے دوام ہمارا کوئی حق نہیں: یہ محض ذاتی کوشش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان اس کے لئے صرف ایک امیدوار ہے۔ مادیت کی سب سے مایوس کن غلطی یہ مفروضہ ہے کہ متناہی شعور اپنے موضوع کا ہر طرح سے مکمل احاطہ کر لیتا ہے۔ فلسفہ اور سائنس موضوع تک پہنچنے کا محض ایک ذریعہ ہیں۔ موضوع تک پہنچنے کے کئی اور راستے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ اگر ہمارے اعمال نے خودی کو اس قدر مستحکم کر دیا ہے کہ ہمارے جسم کے ختم ہونے پر بھی یہ برقرار رہ سکے تو موت بھی ایک راستہ ہے۔ قرآن اس راستے کو برزخ کہتا ہے۔ صوفیانہ تجربے کا ریکارڈ برزخ کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ بھی شعور کی ایک حالت ہے جس میں زمان و مکان کے حوالے سے ہماری خودی کے روّیے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ بات کوئی اتنی بعید از قیاس بھی نہیں۔ یہ ہلم ہولئس تھا جس نے پہلی بار یہ دریافت کیا تھا کہ اعصابی ہیجان کے شعور تک پہنچنے میں بھی کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔۵۸؎ اگر ایسا ہے تو ہماری موجودہ اعصابی ساخت ہمارے موجودہ تصور زمان کی تہ میں کارفرما ہے اور اگر اس ساخت کی بربادی کے باوجود خودی باقی رہتی ہے تو زمان اور مکان کے بارے میں ہمارے روّیے میں تبدیلی بالکل فطری ہے۔ اس طرح کی تبدیلی ہمارے لئے کوئی زیادہ اجنبی بھی نہیں۔ ہمارے عالم خواب میں تاثرات کا اس قدر ارتکاز اور اس لمحے جب موت وارد ہو رہی ہوتی ہے ہماری یادداشت میں تیزی زمان کے مختلف درجات کے لئے خودی کی استعداد کو واضح کرتے ہیں۔ ایسے میں عالم برزخ انفعالی امید کی محض ایک حالت نظر نہیں آتی بلکہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں خودی حقیقت مطلقہ کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں تازہ بتازہ جھلک سے بہرہ یاب ہوتی ہے اور اپنے آپ کو ان پہلوئوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے تیار کرتی ہے ۔ نفسیاتی طور پر یہ ایک زبردست اختلال کی کیفیت ہے خصوصاً ان خودیوں کے لئے جو ذاتی نشود ارتقاء کے انتہائی مدارج حاصل کر چکی ہیں اور جو نتیجہً زمان و مکان کے مخصوص نظام میں ایک مخصوص طرز عمل کی عادی ہو چکی ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ کم نصیب خودیوں کے لئے یہ برزخ مکمل فنا کا مقام بھی ہے۔ تاہم خودی اس وقت تک جدوجہد کرتی رہتی ہے جب تک کہ وہ خود کو مجتمع کرکے بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتی اور اپنی حیات بعد الموت کی منزل نہیں پالیتی۔لہٰذا حیات بعد الموت کوئی خارجی واقعہ نہیں بلکہ یہ خودی کے اندرون میں زندگی کے عمل کی تکمیل ہے۔ خواہ انفرادی سطح ہو یا آفاقی، یہ خودی کی ماضی کی کامیابیوں اور اس کے مستقبل کے امکانات کا حساب کتاب ہے۔ قرآن خودی کی باردگر تخلیق کے مسئلے کے حل کے لئے اس کی اوّلین تخلیق کی مثال دیتا ہے:

وَیَقُوْلُ الإِْنْسَانُ أَئِ ذَا مَامِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَیًّاo أَوَلَا یَذْکُرُ الإِْنْسَانُ أَ نَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیئًا(۶۷- ۶۶:۱۹)
انسان کہتا ہے کہ جب میں مر جائوں گا تو پھر کیونکر زندہ کرکے نکال لایا جائوں گا۔ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے بھی اس کوپیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہیں تھا
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ o عَلَیٰٓ اَنْ نُبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِئَکُمْ فِیْ مَالَا تَعْلَمُوْنَo وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشَأَۃَ الْأُولَیٰ فَلَوْلَا تَذَکَّرُوْنَo
(۶۲-۶۰:۵۶)

ہم نے تمہارے لئے موت مقدر کی اور ہمارے بس سے باہر نہیں کہ تمہاری خلقت تبدیل کر دیں اور تم کو کسی اور روپ میں کھڑا کریں جسے تم جانتے تک نہیں اور تم اپنی پہلی سرشت کو تو جان چکے ہو پھر کیوں تم نصیحت حاصل نہیں کرتے

انسان پہلی بار کیسے وجود میں آیا۔ اوپر دیئے گئے دو اقتباسات کی آخری آیات میں اس اشاراتی دلیل کوبیان کر دیا گیا ہے جس سے مسلم فلاسفہ کے سامنے مباحث کے نئے دروازے کھل گئے۔ جاحظ (متوفی ۲۵۵ ہجری) پہلا شخص تھا جس نے حیوانی زندگی میں ماحول اور نقل مکانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی جانب اشارہ کیا۔ ۵۹؎ پھر اس جماعت نے جسے اخوان الصفا کہا جاتا ہے جاحظ کے اس خیال کو مزید آگے بڑھایا۔۶۰؎ ابن مسکویہ (متوفی ۴۲۱ ہجری) پہلا مسلمان مفکر ہے جس نے انسان کی ابتداء کے بارے میں صاف صاف اور جدید نظریات سے کئی مفاہیم میں ہم آہنگ تصور پیش کیا۔ ۶۱؎ یہ بالکل فطری ہے اور مکمل طور پر قرآن کی روح سے میل کھاتا ہے جو مولانا جلال الدین رومی نے بقائے دوام کے مسئلے کو انسان کے حیاتیاتی ارتقا کا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں جس کا فیصلہ محض مابعدالطبیعیاتی دلائل سے ہوسکے جیساکہ بعض مسلم مفکرین کا خیال تھا۔ ارتقاء کے نظریے نے جدید دنیا میں کسی امید اور جوش کو بیدار کرنے کی بجائے مایوسی اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ اس کی وجہ اس جدید اور بے جواز مفروضہ میں تلاش کرنا پڑے گی جس کے مطابق انسان کی موجودہ ذہنی اور طبیعی ساخت حیاتیاتی ارتقا کی آخری منزل ہے اور موت بحیثیت ایک حیاتیاتی واقعہ کا کوئی تعمیری مفہوم نہیں۔ آج کی دنیا کو ایک رومی کی ضرورت ہے جو امید اور رجائیت کے روّیوں کی تخلیق کرے اور انسانی زندگی میں جوش اور ولولے کی آگ دہکائے۔ اس سلسلہ میں ان کے بے مثال اشعار کو یہاں پیش کیا جاتا ہے:

آمدہ اوّل باقلیم جماد
وز جمادی در نباتی او فتاد
سال ہا اندر نباتی عمر کرد
وز جمادی یاد نآورد از نبرد
وز نباتی چوں بحیوانی فتاد
نآیدیش حال نباتی ہیچ یاد
جز ہمیں میلی کہ دارد سوئے آن
خاصہ در وقت بہار ظمیران
ہمچو میل کودکاں با مادراں
سرمیل خود نداند در لباں
ہم چنیں اقلیم تا اقلیم رفت
تا شد اکنوں عاقل و دانا و زفت
عقل ہائے اولینش یاد نیست
ہم ازین عقلش تحول کرد نیست ۶۲؎

سب سے اوّل انسانی زندگی جمادات کی اقلیم میں آئی اور اس کے بعد نباتات کی دنیا میں وارد ہوئی۔ سالوں تک حیات انسانی اسی نباتاتی حالت میں رہی یہاں تک کہ جماداتی حالت کے اثرات سے آزاد ہوگئی پھر نباتاتی حالت سے انسانی زندگی حیوانی حالت میں آئی اور سال ہاسال اس حالت میں رہی۔ حیوانی زندگی کے دوران اس کی رغبت نباتاتی زندگی کی طرف نظر آتی ہے جب بہار کے موسم میں یا خوشنما اور روح پرور پھولوں کو دیکھ کر وہ ان سے اپنی محبت اسی طرح چھپا نہیں پاتی جس طرح بچے ماں سے محبت کوپوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ پھر خدا نے انسانی زندگی کو حیوانی سطح سے بلند کرکے اسے انسانی زندگی عطا کی اور اس طرح انسان فطرت کے ایک نظم سے نکل کر دوسرے دائرے میں داخل ہوا۔ پھر اسے علم کی فضلیت دے کر حکمت عطا کی اور وہ عقل رکھنے والا، جاننے بوجھنے والااور مضبوط شخصیت رکھنے والا بن گیا جس حالت میں کہ وہ اب ہے۔ اب اسے گزری ہوئی زندگی کا کچھ قصہ یاد نہیں مگر اسے پھر ایک بار نفس کی موجودہ حالت میں لایا جائے گا۔ ۶۳؎

تاہم مسلمان فلاسفہ اور ماہرین الہٰیات کے درمیان جس نکتہ پر اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ کیا روز قیامت انسان کو ہماری موجودہ دنیا کی طبیعی حالت میں اٹھایا جائے گا۔ ان میں سے بہت سارے جن میں آخری بڑے ممتاز ماہر الہٰیات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی شامل ہیں کا رحجان فکر اس طرف ہے کہ قیامت کے دن ہمیں ہماری خودی کے نئے ماحول کی مناسبت سے کسی موزوں جسمانی حالت میں اٹھایا جائے گا۔ مجھے تویوں نظر آتا ہے کہ اس نقطہ نظر کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ خودی کی فردیت کسی حسی اور تجربی پس منظر یا کسی ٹھوس مقامی حوالے کے بغیر تصور ہی نہیں کی جاسکتی۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیات اس نقطہ نظر پر کچھ روشنی ڈالتی ہیں:

ذٰالِکَ رَجْعٌ بَعِیْدٌo قَدْ عَلِمْنَا مَاتَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْہُمْ وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌo (۴-۳:۵) ۶۴؎
)پھر منکرین کہتے ہیں کہ یہ تو عجیب سی بات ہے کہ کیا جب ہم سب مرجائیں گے اور مٹی میں مل چکے ہوں گے تودوبارہ زندگی دیئے جائیں گے( یہ زندگی کی طرف واپسی تو قرین عقل نہیں۔ زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھا جاتی ہے وہ سب کچھ ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں ہر شئے کا حساب کتاب محفوظ کر دیا گیا ہے

میرے خیال میں یہ آیات کائنات کی اس ماہیت کے بارے میں ہمیں کھلے طور پر بتاتی ہیں کہ انسانی اعمال کے حتمی حساب کتاب کے لئے کسی اور قسم کی انفرادیت کا قائم رکھنا نہایت ضروری ہے خواہ اس موجودہ ماحول میں اس کی انفرادیت کو متشخص کرنے والی شئے منتشر ہی کیوںنہ ہو جائے۔ وہ دوسری قسم کیا ہے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی اپنی دوسری بار جسمانی تخلیق کی نوعیت کے بارے میں کچھ مزید علم رکھتے ہیں__ ۶۵؎ خواہ یہ جسم کتنا ہی لطیف کیوں نہ ہو__کہ وہ کس طرح وقوع پذیر ہوگی۔ قرآن کی تمثیلات اس کو ایک حقیقت قراردیتی ہیں: وہ اس کی ماہیت اور کردار کے بارے میں کچھ ظاہر نہیںکرتیں۔ فلسفیانہ انداز سے بات کریں تو ہم اس سے زیادہ آگے نہیںجا سکتے کہ انسانی تاریخ کے ماضی کے تجربے کی روشنی میں یہ نقطہ نظر غیر اغلب ہے کہ انسان کے جسم کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اس کی ہستی بھی انجام کو پہنچ جائے گی۔

تاہم قرآن کی تعلیمات کے مطابق انسان کو جب دوبارہ اٹھایا جائے گا تو اس کی نظر بہت تیز ہوگی (۵۰:۲۲) جس کے باعث وہ صاف طور پر اپنی گردن میں پڑی ہوئی خود اپنے اعمال سے بنائی ہوئی تقدیر کو دیکھ لے گا۔ ۶۶؎ جنت اور دوزخ دونوں حالتیں ہیں مقامات نہیں۔ قرآن میں ان کی تصویر کشی انسان کی داخلی کیفیت یعنی کردار کا بصری اظہار ہے۔ ۶۷؎ قرآن کے الفاظ میں دوزخ دلوں پر مسلط خدا کی دہکائی ہوئی آگ ہے ۶۸؎ جوانسان کو اس کی ناکامی کے اذیت ناک احساس میںمبتلا رکھتی ہے اور جنت انسانی خودی کو تباہ کرنے والی قوتوں پر قابو پانے کا احساس کامرانی و شادمانی ہے۔ اسلام میں ابدی عذاب ایسی کوئی چیز نہیں۔ بعض آیات میں دوزخ سے متعلق 'ہمیشہ' (خالدین) کالفظ استعمال ہوا ہے جو قرآن نے کئی اور مقامات پر خود واضح کر دیا ہے کہ اس کا مطلب بھی ایک مخصوص عرصہ ہے ۔ انسانی شخصیت کے ارتقاء سے وقت کوبالکل غیر متعلق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیرت کا رحجان پختگی کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا نئی صورت میں ڈھلنا وقت کا تقاضا کرتا ہے۔ دوزخ، جیسا کہ بیان کیا ہے، ایسا گڑھا نہیں جو ایک منتقم مزاج خدا نے انسان کو مستقلاً عذاب دینے کے لئے بنایا ہے ۶۹؎ بلکہ یہ انسان کی اصلاح کا تجربہ ہے جو خدا کی رحمت کے حصول کے لئے ایک پتھرائی ہوئی خودی کو زیادہ حساس بنا سکتا ہے۔ ۷۰؎ نہ ہی جنت کوئی تعطیل ہے۔ زندگی یکتا اور متسلسل ہے۔ انسان ہمیشہ حقیقت مطلقہ سے تازہ روشنی حاصل کرنے کے لئے آگے کی سمت بڑھتا رہتا ہے جو ہر لحظہ نئی آن اورنئی شان سے ظاہر ہوتی ہے ۷۱؎ اور خدا سے روشنی کاحصول محض انفعالی نہیں۔ آزاد خودی کا ہر عمل ہر دم ایک نئی صورت حال پیدا کرتا ہے اور یوں وہ تخلیقی کشود کے مزید مواقع فراہم کرتا ہے۔

<<پچھلا  اگلا>>

مسلم ثقافت کی روح

مسلم ثقافت کی روح


دیگر زبانیں
English
اردو

logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان