www.allamaiqbal.com
  bullet سرورق   bullet سوانح bulletتصانیفِ اقبال bulletگیلری bulletکتب خانہ bulletہمارے بارے میں bulletرابطہ  

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

تجدیدِ فکریاتِ اسلام

مندرجات

ابتدائیہ
علم اور مذہبی مشاہدہ
مذہبی واردات کے انکشافات کا...
خدا کا تصور اور دُعا کا مفہوم
انسانی خودی اس کی آزادی اور...
مسلم ثقافت کی روح
اسلام میں حرکت کا اُصول
کیا مذہب کا امکان ہے؟
حواشی و حوالہ جات
Quranic Index


دیگر زبانیں

مذہبی واردات کے انکشافات کا فلسفیانہ معیار

"مذہب کے عزائم فلسفے کے عزائم سے بلند ہوتے ہیں۔ فلسفہ اشیاء کے بارے میں عقلی نقطۂ نظر ہے اور وہ اس تصور سے آگے نہیں بڑھتا جو تجربے کی کثرث کو ایک تنظیم میں لا سکے۔ وہ گویا حقیقت کو قدرے فاصلے پر دیکھتا ہے۔ مذہب حقیقت سے زیادہ گہرے تعلق کا متلاشی ہے،،

اقبالؒ

مدرسی فلسفے نے خدا کی ہستی کے ثبوت میں تین دلائل دیئے ہیں۔ یہ دلائل جو کونیاتی یا علتی ' غایتی یا مقصدی اور وجودیاتی کے ناموں سے معروف ہیں حقیقت مطلقہ کی جستجو میں انسانی فکر کی حقیقی پیش رفت سے عبارت ہیں۔ مگر میرے خیال میں منطقی دلائل کی حیثیت سے ان پر شدید تنقید کی جا سکتی ہے۔ مزید برآں ان کی بنیاد تجربے کی محض سطحی تعبیر ہے۔ کونیاتی یا علتی دلیل دنیا کو ایک متناہی معلول تصور کرتی ہے اور ایک دوسرے پر منحصر مقدمات و موخرات جنہیں علل و معلولات کہتے ہیں کے سلسلے میں سے گزرنے کے بعد ایک ایسی علت اولیٰ پر رُک جاتی ہے جس کی اپنی کوئی علّت نہیں اور یہ اس بنا پہ کہ لامتناہی پس روی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ متناہی معلول کی علت بھی متناہی ہو گی یا زیادہ سے زیادہ ایسی علّتوںکا ایک لامتناہی تسلسل ہو گا۔ علل و معلولات کے سلسلے کو کسی ایک نکتے پر روک دینا اور سلسلے کے کسی ایک رکن کو علّت العلل کا درجہ دے دینا تعلیل کے خود اس قانون کی نفی ہے جس پر یہ دلیل استوار ہے۔ مزید برآںیہ دلیل جس علّت اوّل تک پہنچتی ہے اس کا معلول اس سے لازمی طور پر خارج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معلول اپنی علّت کی تحدید کرتے ہوئے اسے محدود بنا دیتا ہے۔ اور پھر اس استدلال سے نتیجۃً حاصل ہونے والی علّت اوّل لازمی طور پر ایک واجب الوجود ہستی نہیں ہو گی کیونکہ ایک علتی رشتے میں علت اور معلول برابر طور پر ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس استدلال سے صرف یہ مترشح ہوتا ہے کہ علّیت کا تصور ناگزیر ہے، یہ نہیں کہ ایک واجب الوجود ہستی حقیقۃً موجود بھی ہے۔ اس دلیل کی اصل کوشش یہ ہے کہ وہ متناہی کی نفی سے لامتناہی تک پہنچے۔ اب اگر لامتناہی تک متناہی کو رد کرتے ہوئے پہنچا گیا ہے تو وہ ایک کاذب لامتناہی ہوگا جو نہ تو خود اپنی توضیح کرتا ہے اور نہ متناہی کی جو کہ لامتناہی کے مخالف کھڑا ہے۔ ایک سچا لامتناہی' متناہی کو اپنے سے خارج نہیں سمجھتا۔ وہ متناہی کی حیثیت پر اثر ڈالے بغیر اس پر حاوی ہوتا ہے اور اس کے وجود کو توضیح اور جواز فراہم کرتا ہے۔ منطقی طور پر یوں کہا جائے گا کہ متناہی سے لامتناہی تک اس استدلال کا مجوزہ سفر ناجائز ہے۔ اس طرح یہ دلیل مکمل طور پر ناکام ہو جاتی ہے۔ غایتی دلیل اس کونیاتی دلیل سے کچھ بہتر نہیں۔ یہ معلول کو جانچتی ہے تاکہ اس کی علت کی نوعیت کو دریافت کر سکے۔ فطرت میں موجود پیش بینی، مقصدیت اور تطابق کے آثار سے یہ ایک ایسی ہستی کو ثابت کرتی ہے جو شعور بالذات اور علم و قدرت کی حامل ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ دلیل ہمیں ایک ایسے ماہر کاری گر کا تصور دیتی ہے جو پہلے سے موجود مردہ اور بے تربیت مادے پر کام کرتا ہے جس کے اجزا اپنی فطرت میں اس قابل نہیں کہ وہ خود ترتیب پا سکیں اور ایک ڈھانچہ متشکل کر سکیں۔ یہ دلیل ایک صانع کا تصور دیتی ہے، ایک خالق کا تصور نہیں دیتی۔ اور اگر ہم یہ تصور کر لیں کہ وہ اس مادے کا پیدا کرنے والا بھی ہے تو یہ اس کی حکیمانہ ذات کے لئے کوئی اعزاز کی بات نہیں ہو گی کہ وہ پہلے تو ایک بے ترتیب مادے کی تخلیق اور پھر اس متزاحم مادے کی اصل فطرت سے متغائر منہاجوں کے اطلاق سے اسے اپنے قابو میں کرنے کی مشکل میں پڑے۔ ایک ایسا صانع جسے اپنے خام مواد سے الگ تصور کیا جاتا ہے اُسے یہ خام مواد لازمی طور پر محدود کر دیتا ہے۔ اس محدود صانع کے محدود ذرائع اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لئے وہی رویہ اختیار کرے جو ایک انسان بحیثیت صانع کے اختیار کرتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ دلیل جس نہج پر آگے بڑھتی ہے اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ انسانی صنعت گری اور مظاہر فطرت میں کوئی باہمی مشابہت نہیں۔ انسانی صناعی اپنے مواد کو اس کے قدرتی علائق اور مقام سے علیحدہ کئے بغیر کسی منصوبے پر عمل درآمد نہیں کر سکتی جبکہ فطرت ایک ایسا نظام ہے جس کے مظاہر ایک دوسرے پر انحصار رکھتے ہیں۔ اس کا طریق عمل کسی کاریگر کے کام سے کوئی بھی مشابہت نہیں رکھتا کیونکہ اس کا انحصار اپنے خام مال کو الگ الگ کرنے اور پھر جوڑنے سے ہو گا لہٰذا فطرت کی نامیاتی وحدتوں کے ارتقاء سے اس کی کوئی مماثلت نہیں۔

وجودیاتی دلیل، جو مختلف مفکرین کی طرف سے مختلف شکلوں میں پیش کی جاتی ہے، نے بہت سے اہل فکر حضرات کو متاثر کیا ہے۔اس دلیل کی کارتیسی صورت کچھ یوں ہے:

"جب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی شے کی ہیئت یا اس کے تصور میں اس کی صفت موجود ہے تو یہ اسی طرح ہے جیسے یہ کہا جائے کہ اس کی یہ صفت درست ہے اور یہ اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ وہ صفت اس کے اندر موجود ہے۔ اب خدا کی ہیئت اور تصور میں وجود لازم موجود ہے۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ خدا کے لئے وجود لازم ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں خدا موجود ہے۔" ۱ ؎

ڈیکارٹ اس دلیل کے ساتھ ایک اور دلیل کا اضافہ کرتا ہے: "ہمارے ذہن میں ایک اکمل ہستی کا تصور موجود ہے۔ اس تصور کا مبداء کیا ہے۔ یہ تصور فطرت نے پیدا نہیں کیا کیونکہ فطرت تو محض تغیر ہے۔ وہ ایک اکمل ہستی کا تصور پیدا نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اس تصور کے مقابل ایک معروضی ہستی موجود ہے جو ہمارے ذہن میں اس اکمل ہستی کا تصور پیدا کرتی ہے"۔ یہ دلیل بھی اپنی فطرت میں ایک طرح سے کونیاتی دلیل جیسی ہے جس پر پہلے ہی تنقید کی جا چکی ہے۔ تاہم اس دلیل کی جو بھی صورت ہو یہ بات تو واضح ہے کہ کسی وجود کا تصور اس وجود کی معروضی موجودگی کا ثبوت ہرگز نہیں ہو سکتا۔ جیسے کانٹ نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین سو ڈالروں کا میرے ذہن میں تصور یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ میری جیب میں تین سو ڈالر واقعۃً موجود ہیں۔ ۲؎ جو کچھ اس دلیل سے مترشح ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک مکمل وجود کے تصور میں اس کی ہستی کا تصور موجود ہے۔ میرے ذہن میں ایک مکمل ہستی کے تصور اور اس ہستی کی معروضی حقیقت کے درمیان ایک خلیج ہے جو محض فکر کے ماورائی عمل سے نہیں پاٹی جا سکتی۔ یہ دلیل، جیسا کہ اسے بیان کیا گیا ہے، حقیقت میں ایک مغالطہ ہے جسے منطق میں مصادرہ علی المطلوب کہتے ہیں ۳؎ کیونکہ اس میں دعوی کو جس کے لیے ہم دلیل چاہتے ہیں پہلے ہی تسلیم کر لیتے ہیں اور اس طرح منطقی حقیقت کو واقعی حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔مجھے امید ہے کہ میں نے غایتی اور وجودیاتی دلائل، جیسا کہ وہ عام طور پر بیان کئے جاتے ہیں، کے بارے میں واضح کر دیا ہے کہ وہ ہمیں کہیں بھی نہیں پہنچاتے۔ ان کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ وہ فکر کو ایک ایسی قوت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جو چیزوں پر خارج سے عمل کرتی ہے۔ یہ طرز فکر ایک جانب ہمیں محض ایک میکانکیت عطا کرتا ہے اور دوسری جانب یہ حقیقت اور تصور میں ایک ناقابل عبور خلیج حائل کر دیتا ہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ ہم فکر کو محض ایک اُصول کی طرز پر نہ لیں جو خارج سے اپنے مادہ کی تنظیم و تربیت کرتا ہے بلکہ بطور ایک ایسی استعداد کے دیکھیں جو اپنے مادہ کی صورت گری خود کرتا ہے۔ اس مفہوم میں فکر یا تصور اشیاء کی اصل فطرت سے متغائر نہیں رہے گا بلکہ ان کی حتمی اساس اور اشیاء کے جوہر کا تشکیل کرنے والا ہو گا جو ان کے کرداروں میں شروع سے ہی اثر انداز ہے اور انہیں ان کے متعین کردہ نصب العین کی طرف حرکت زن رہنے کی تحریک دیتا ہے۔ مگر ہماری موجودہ صورت حال تو فکر اور وجود کی ثنویت کو ناگزیر تصور کرتی ہے۔ انسانی عمل کا ہر سانحہ صحیح تحقیق و تفتیش کے بعد ایک وحدت ثابت ہونے والی حقیقت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے: ایک نفس جو کہ جانتا ہے اور ایک شی دیگر جسے کہ جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے نفس کے بالمقابل معلوم کو معروض گرداننے پر مجبور ہیں، جواز خود موجود ہے' جو نفس سے خارج بھی ہے اور خود مختار بھی اور جانے جانے کے عمل سے بے نیاز ہے۔ غایتی اور وجودیاتی دلائل کی صحیح نوعیت اس وقت ظاہر ہو گی جب ہم یہ ثابت کر سکیں کہ موجودہ انسانی صورت حال حتمی نہیںاور یہ کہ فکر اور وجود بالآخر ایک ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم قرآنی منہاج کے مطابق احتیاط کے ساتھ تجربے کا تجزیہ کرکے اس کی توجیہ کریں__ وہ منہاج جو باطنی اور خارجی دونوں قسم کے تجربات کو اُس حقیقت کی نشانیاں تصور کرتا ہے ۴؎ جو اوّل بھی ہے اور آخر بھی، جو نظر بھی آتا ہے اور جو نظروں سے اوجھل بھی ہے ۔ ۵؎ اس خطبہ میں یہی چیز میرے پیش نظر ہے۔

مشاہدہ جب زمان میں اپنی گرہیں کھولتا ہے تو وہ خود کو تین درجات میں ظاہر کرتا ہے:

۱- مادی سطح پر ۲- زندگی کی سطح پر ۳- ذہن و شعور کی سطح پر جو بالترتیب طبیعیات ، حیاتیات اور نفسیات کے موضوعات ہیں۔ آئیے سب سے پہلے مادہ کی طرف توجہ دیں۔جدید طبیعیات کے حقیقی مقام کو جاننے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم واضح طور پر یہ سمجھیں کہ مادہ سے ہماری مراد کیا ہے۔ طبیعیات ایک تجربی علم ہے جو حسی تجربے کے حقائق سے بحث کرتا ہے۔ طبیعیات کا آغاز محسوس مظاہر سے ہوتا ہے اور انہی پر اس کی انتہا ہے جن کے بغیر ماہر طبیعیات کے لیے ممکن نہیں کہ اپنے نظریات کی تصدیق کر سکے۔ وہ ناقابل ادراک موجودات مثلاً ایٹم وغیرہ کو مفروضے کے طور پر قبول کر سکتا ہے۔ مگر وہ ایسا اسی وقت کرتا ہے جب حسی تجربے کو واضح کرنے کے لیے اُس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ طبیعیات مادی دنیا کا مطالعہ کرتی ہے ' یعنی وہ دنیا جو ہمارے حواس سے منکشف ہوتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے ذہنی عوامل اور اسی طرح مذہبی اور جمالیاتی مشاہدات بھی متعلق ہوتے ہیں لیکن یہ اُس کے دائرہ بحث میں شامل نہیں ہوتے کیونکہ یہ دائرہ بحث مادی دنیا یعنی اشیائے مدرکہ کی کائنات تک محدود ہے۔ مگر جب میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ مادی دنیا میں کن چیزوں کا ادراک کرتے ہیں تو یقینی طور پر آپ اپنے اردگرد کی معروف اشیاء کا حوالہ دیں گے مثلاً زمین، آسمان، پہاڑ' کرسی' میز وغیرہ۔ جب میں پھر آپ سے پوچھوں کہ آپ حقیقتًا ان اشیاء کی کس بات کا ادراک کرتے ہیں تو آپ کا جواب ہو گا کہ ان اشیاء کی صفات کا۔ اب یہ واضح ہے اس طرح کے سوال کے جواب میں ہم اپنے حسی انکشافات کی توجیہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تعبیر شے اور اس کی صفات کے درمیان امتیاز پر مشتمل ہے جو دراصل ایک مادی نظریہ ہے۔ یعنی مدلولات حواس کیا ہے۔ ادراک کرنے والے ذہن سے ان کا کیا تعلق ہے اور ان کی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ اس نظریے کا خلاصہ یوں ہے۔

حواس کے معروض مثلاً رنگ اور آواز وغیرہ ادراک کرنے والے ذہن کی اپنی حالتیں ہیں اور یوں وہ فطرت کی معروضیت سے خارج ہیں۔ اس بنا پر وہ کسی بھی مفہوم میں مادی اشیاء کے خواص نہیں ہوتے۔ جب میں کہتاہوں "آسمان نیلا ہے" تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آسمان میرے ذہن پر نیلے پن کی حس مرتسم کرتا ہے ورنہ نیلا رنگ کوئی ایسی صفت نہیں جو آسمان میں پائی جاتی ہے۔ ذہنی حالتوں کے بطور یہ ارتسامات ہیں جو ہمارے اندرتاثرات پیدا کرتے ہیں۔ ان تاثرات کی وجہ مادہ یا مادی اشیاء ہیں جو ہمارے اعضائے حس، اعصاب اور دماغ کے ذریعے ہمارے ذہن پر عمل کرتی ہیں۔ یہ مادی علت چونکہ تعلق یا تصادم کے ذریعے عمل پیرا ہوتی ہے لہٰذا یہ شکل، حجم، ٹھوس پن اور مزاحمت کی صفات رکھتی ہے۔ ۶؎

یہ فلسفی برکلے تھا جس نے مادہ کو ہمارے حواس کی ایک نامعلوم علت ماننے کے نظریے کا ابطال کیا۔ ۷؎ ہمارے اپنے عہد میں وائٹ ہیڈ ایک ممتاز ماہر ریاضی اور سائنس دان ہے جس نے حتمی طور پر یہ واضح کیا ہے کہ مادیت کا روایتی نظریہ کاملاً ناقابل قبول ہے۔ واضح رہے کہ اس نظریے میں رنگ' آوازیں وغیرہ محض موضوعی حالتیں ہیں، وہ فطرت کا حصہ نہیں۔ جو کچھ آنکھ اور کان کی وساطت سے موصول ہوتا ہے وہ نہ رنگ ہے اور نہ آواز: وہ ایتھر کی نظر نہ آنے والی اور ہوا کی سنائی نہ دینے والی لہریں ہیں۔ فطرت وہ نہیں جو ہمیں معلوم ہے۔ ہمارے ادراکات ہمارے واہمے ہیں۔ انہیں کسی طور بھی فطرت کے ترجمان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس نظریے کے تحت فطرت دو حصوں میں تقسیم ہے: ایک طرف ذہنی ارتسامات ہیں تو دوسری طرف ناقابل تصدیق اور ناقابل ادراک اشیاء ہیں جو ان ارتسامات کو پیدا کرتی ہیں۔ اگر طبیعیات فی الواقعہ اشیائے مدرکہ کے مرتب اور منظم علم پر مشتمل ہے تو مادے کے روایتی نظریے کو اس بنا پر مسترد کر دینا چاہیے کہ یہ ہمارے حواس کی شہادتوں کو جن پر ایک ماہر طبیعیات مشاہدہ اور تجربہ کرنے والے کی حیثیت سے لازمی طور پر انحصار کرتا ہے مشاہدہ کرنے والے کے ذہنی ارتسامات میں تحویل کر دیتا ہے۔یہ نظریہ فطرت اور شاہد فطرت کے مابین ایک خلیج حائل کرتا ہے جسے عبور کرنے کے لیے اسے کسی ناقابل ادراک شے کا ایک بے اعتبار مفروضہ گھڑنا پڑتا ہے جس نے مطلق مکان کو خلا میں پڑی کسی شے کی طرح گھیر رکھا ہے اور جو کسی تصادم کے سبب حواس کی علت ہے۔ پروفیسر وائیٹ ہیڈ کے الفاظ میں اس نظریے کی رو سے فطرت کا نصف ایک خواب اور نصف ظن و تخمین تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ ۸ ؎ چنانچہ طبیعیات کے لئے اب خود اپنی ہی بنیادوں پر تنقید ناگزیر ہو گئی ہے جس کی بنا پر اس کے اپنے بنائے ہوئے بت بھی از خود ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں اور حواسی رویہ جو سائنسی مادیت کی احتیاج کے طور پر ظاہر ہوا تھا اب مادہ کے خلاف ہو گیا ہے۔ اب چونکہ اشیاء موضوعی حالتیں نہیں جن کا سبب ناقابل ادراک شے یعنی مادہ ہے وہ حقیقی مظاہر ہیں جن سے فطرت کا ہیولیٰ متشکل ہوتا ہے اورجن کو ہم فطرت کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ تاہم ایک اور ممتاز ماہر طبیعیات آئن سٹائن نے تو مادہ کے تصور کے پرخچے اڑا دیئے ہیں۔ اس کی دریافتوں نے انسانی فکر کے پورے نظام میں ایک دور رس انقلاب کی بنیادیں فراہم کر دیں ہیں۔ لارڈ ولیم برٹرینڈ رسل کے بقول "نظریہ اضافیت نے زمان کو 'مکان۔ زمان' میں مدغم کرکے جواہر کے روایتی نظریے پر کاری ضرب لگائی ہے جو فلاسفہ کے دلائل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ فہم عامہ کے نزدیک مادہ زمان میں ہے اور مکان میں حرکت کرتا ہے مگر جدید اضافیت کی طبیعیات میں یہ امر اب قابل قبول نہیں۔ مادے کا ایک ٹکڑا اب بدلتی ہوئی حالتوں میں برقرار رہنے والی چیز نہیں رہا بلکہ باہم مربوط واقعات کا ایک نظام ہے۔ مادہ کی ٹھوس جسمیت مہمل ہو کر رہ گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ خواص بھی جو مادئیین کے نزدیک مادے کو خیالات پریشان سے زیادہ حقیقی قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ پروفیسر وائیٹ ہیڈ کے نزدیک فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں جو ایک غیر متحرک خلا میں واقع ہو بلکہ واقعات کا ایک ایسا نظام ہے جو ایک مسلسل تخلیقی بہائو کی صفت رکھتا ہے جسے فکر انسانی جدا جدا ایسے ساکنات میں بانٹ دیتا ہے جن کے آپس کے تعلق سے زمان و مکان کے تصورات وجود پاتے ہیں۔ یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح جدید سائنس نے برکلے کی تنقید کو درست مانا جسے کبھی سائنس کی بنیادوں پر حملہ کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ فطرت کو خالص مادی سمجھنے کا سائنسی رویہ نیوٹن کے اس نظریہ سے متعلق ہے جس کے مطابق مکان ایک خلائے مطلق ہے جس میں اشیاء رکھی ہیں۔ سائنس کے اس رویے سے یقینی طور پر اس کی ترقی کی رفتار تیز ہوئی ہے مگر تجربے کی وحدت کی دو مخالف خانوں ذہن اور مادہ میں تقسیم نے اب اسے اپنی داخلی مشکلات کے تحت مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر دوبارہ غور کرے جسے اس نے شروع میں مکمل طور پر نظر اندازکر دیا تھا۔ ریاضیاتی علوم کی بنیادوں پر تنقید نے واشگاف طور پر اس مفروضے کو ناقابل عمل قرار دے دیا ہے کہ مادہ مکان مطلق میں واقع کوئی قائم بالذات شے ہے۔ کیا مکان ایک قائم بالذات خلا ہے جس میں اشیاء موجود ہیں اور اگر تمام اشیاء اس میں سے نکال لی جائیں تو وہ پھر بھی موجود رہے گا؟ ۹؎ قدیم یونانی فلسفی زینو نے مکان کو مکان میں حرکت کے مسئلے کے حوالے سے دیکھا۔ حرکت کے غیر حقیقی ہونے کے بارے میں اس کے دلائل سے فلسفے کے طلبا پوری طرح آگاہ ہیں۔ اس کے عہد سے لیکر اب تک یہ مسئلہ تاریخ فکر میں موجود چلا آ رہا ہے اور اس نے مفکرین کی کئی نسلوں کی گہری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ یہاں اس کے دو دلائل کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ زینو' جس نے مکان کو لامحدود طور پر قابل تقسیم کہا تھا' نے استدلال کیا کہ مکان میں حرکت ممکن نہیں۔ اس سے قبل کہ حرکت کرنے والا جسم اپنی منزل کے نقطہ تک پہنچے اسے اس مکان کے اس نصف تک پہنچنا ہو گا جو آغاز منزل اور اختتام منزل کے مابین ہے اور قبل اس کے کہ وہ اس نصف میں سے گزرے اسے اس کے نصف تک پہنچنا ہو گا۔ چنانچہ اس طرح یہ سلسلہ لامحدود طور پر جاری رہے گا۔ یوں ہم مکان کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک مکان کے لامحدود درمیانی نکات سے گزرے بغیر حرکت نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہم محدود زمان میں لامحدود نکاتِ مکان سے گزرسکیں۔ وہ مزید استدلال کرتا ہے کہ ایک اڑتا ہوا تیر کبھی حرکت نہیں کرتا کیونکہ اپنی اڑان کے دوران کسی وقت بھی وہ مکان کے کسی نکتہ پر ضرور ساکن ہو گا۔ یوں زینو کا خیال تھا کہ حرکت بظاہر تو دکھائی دیتی ہے لیکن دراصل یہ محض ایک التباس ہے۔ حقیقت ایک ہے جس میں کوئی حرکت نہیں۔ حرکت کے غیر حقیقی ہونے کا مطلب مکان کے قائم بالذات ہونے کے تصور کا غیر حقیقی ہونا ہے۔ اشعری مکتب کے مسلم مفکرین زمان و مکان کے غیر محدود طور پر منقسم ہونے کا یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں زمان و مکان اور حرکت جن نکات اور لمحات سے وجود پاتے ہیں وہ مزید تقسیم نہیں ہو سکتے۔ اس طرح وہ بے حد خفیف اور ناقابل تقسیم سالمات کی موجودگی کے مفروضہ پر حرکت کا امکان تسلیم کرتے ہیں۔ اب اگر زمان و مکان کے منقسم ہونے پر کوئی حد ہے تو زمانِ محدود میں مکان کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک حرکت ممکن ہو گی۔ ۱۰؎ تاہم ابن حزم نے اشاعرہ کے نقطہ نظر کو ردّ کر دیا تھا جس کی جدید ریاضی دانوں نے توثیق کر دی ہے چنانچہ اشاعرہ کی دلیل منطقی طور پر زینو کے متناقضات کا حل نہیں ہے۔ ۱۱؎ عہد جدید کے دو مفکرین فرانس کے فلسفی ہنری برگساں اور برطانیہ کے ریاضی دان لارڈ ولیم برٹرینڈ رسل نے زینو کے دلائل کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے ردّ کرنے کی کوشش کی ہے۔ برگساں تو حرکت بحیثیت تغیر محض کو ہی اصل حقیقت قرار دیتا ہے۔ زینو کے متناقضات کی بنیاد زمان و مکان کے غلط تصور پر ہے جنہیں برگساں حرکت کے محض ایک عقلی ادراک سے تعبیر کرتا ہے۔ یہاں یہ ممکن نہیں کہ برگساں کی دلیل کو حیات کے اُس مابعد الطبیعیاتی تصور کو پوری طرح بیان کئے بغیر آگے بڑھایا جاسکے جس پر یہ دلیل قائم ہے۔ ۱۲؎ رسل کی دلیل کانٹور کے ریاضیاتی تسلسل کے نظریے پر مبنی ہے ۱۳؎ جسے اس نے جدید ریاضیاتی دریافتوں میں سے اہم ترین گردانا ہے۔ ۱۴؎ واضح رہے کہ زینو کی دلیل اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ زمان و مکان لا محدود نکات اور لمحات پر مشتمل ہیں۔ اس مفروضہ پر یہ استدلال کرنا آسان ہے کہ چونکہ دو نکات کے درمیان حرکت کرنے والی شے بے مکان ہو گی اس لئے حرکت ناممکن ہے کیونکہ وہاں کوئی جگہ ہی نہیں ہو گی جہاں وہ حرکت کر سکے۔ کانٹور کی دریافت بتاتی ہے کہ زمان و مکان مسلسل ہیں۔ مکان کے کسی بھی دو نکات کے درمیان لاتعداد نکات ہیں اور ایک غیر محدود سلسلہ ہائے نکات میں کوئی نکتہ بھی ایک دوسرے سے آگے یا پیچھے نہیں ہوتا۔زمان و مکان کے غیر محدود قابل تقسیم ہونے کا مطلب نکات کی ایک متسلسل پیوستگی ہے: اس کا مطلب یہ نہیں کہ نکات آپس میں الگ تھلگ ہیں یعنی یہ کہ وہ ایک دوسرے کے درمیان خلا رکھتے ہیں۔ چنانچہ رسل زینو کی دلیل کے جواب میںکہتا ہے:

زینو کہتاہے آپ کس طرح ایک لمحے میں ایک مقام سے دوسرے لمحے میں دوسرے مقام تک جا سکتے ہیں جبکہ آپ کسی لمحے کسی ایک مقام پر موجود ہی نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک مقام سے آگے کوئی دوسرا مقام نہیںاور کوئی لمحہ دوسرے لمحے کے بعد نہیں۔ کیونکہ کسی بھی دو کے درمیان کوئی تیسرا ضرور موجود ہوتا ہے۔ اگر لایتجزات کا وجود ہوتا تو حرکت ناممکن ہوتی مگر ایسا نہیں ہے۔ اس طرح زینو یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ اپنی پرواز کے ہر لمحے میں تیر ساکن ہو گا مگر اس سے یہ استدلال درست نہیں کہ وہ حرکت نہیں کرتا۔ یہ اس لیے کہ لمحوںکے غیر محدود سلسلے اور نقاط کے غیر محدود سلسلے کے پس منظر میں دوران حرکت میں ہر نقطے کے بالمقابل ایک لمحہ ضرور ہو گا۔ اس نظریے کی روشنی میں زینو کی دلیل کے متناقضات سے بچتے ہوئے زمان و مکان اور حرکت کی حقیقت کا اثبات کیا جا سکتا ہے۔ ۱۵؎

اس طرح برٹرینڈ رسل نے کانٹور کے نظریۂ تسلسل کی بنیاد پر حرکت کی حقیقت کو ثابت کیا۔ حرکت کی حقیقت کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مکان ایک خود مختار حقیقت ہے اور فطرت کی حیثیت معروضی ہے مگر تشخصِ تسلسل اور مکان کے لامحدود تجزیہ کے بعد بھی حرکت کے مسئلے میں درپیش مشکل حل نہیں ہوتی۔ یہ فرض کر لینے کے بعد کہ وقت کے ایک محدود وقفے میںواقعات کی لامحدود کثرت کے مابین اور ایک محدود حصہ مکان میں لامحدود نکات کی کثرت کے اندر ہر لمحے کے مقابلے میں ایک نکتہ اور ہر نکتے کے مقابلے میں ایک لمحہ موجود ہے مکان کے تجزیہ سے پیدا ہونے والی مشکل تو ویسے ہی رہے گی۔ تسلسل کے ریاضیاتی تصور کا بطور ایک لامحدود سلسلے کے حرکت بطور عمل پر اطلاق نہیں ہوتا بلکہ حرکت کی اس تصویر پر ہوتا ہے جسے ہم خارج سے دیکھتے ہیں۔عمل حرکت یعنی حرکت جس کا ہم تجربہ کرتے ہیں نہ کہ جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں' کسی تجربے اور تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تیر کی پرواز مکان میں سفر کی حیثیت سے قابل تقسیم ہے۔ مگر بحیثیت ایک عمل، قطع نظر اس تعلق کے جو اسے مرور فی المکان سے ہے، اسے ایک وحدت اور کسی قسم کی کثرت میں ناقابل تقسیم قرار دینا پڑے گا۔اس کی تقسیم اس کو ختم کرنے کے مترادف ہو گی۔

آئن سٹائن کے خیال میں مکان ایک حقیقت ہے مگر اس کائنات کا مشاہدہ کرنے والے کے نزدیک اضافی ہے۔ وہ نیوٹن کے مکانِ مطلق کے تصور کو مسترد کرتا ہے۔ مشاہدہ کیا جانے والا معروض تغیر پذیر ہے۔ یہ مشاہدہ کرنے والے کے لیے اضافی ہے۔ اس کی کمیت' شکل اور حجم میں مشاہدہ کرنے والے کی حالت و رفتار اور ماہیت کے مطابق تغیر آتا جائے گا۔ حرکت اور سکون بھی مشاہدہ کرنے والے کے لیے اضافی ہیں۔ لہٰذا قدیم طبیعیات کے نظریے کے مطابق خود مختار مادہ نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ متذکرہ بالا مفہوم میں مشاہدے کے لفظ کے استعمال نے ولڈن کار کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا کہ نظریہ اضافیت لازمی طور پر جو ہر واحد کو تصوریت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ نظریہ اضافیت کی رو سے اشیاء کی شکلیں ان کے حجم اور دوران مطلق نہیں مگر' جیسا کہ پروفیسر نن نے نشاندہی کی ہے' نظمِ زمان و مکان شاہد کے ذہن پر منحصر نہیں: اس کا انحصار اس مادی کائنات کے اُس نقطے پر ہے جس سے اس کا جسم وابستہ ہے۔در حقیقت شاہد کی جگہ پر بڑی آسانی کے ساتھ ایک ریکارڈنگ کرنے والے آلے کو رکھا جا سکتا ہے۔ ۱۶؎ ذاتی طور پر میرا یقین یہ ہے کہ حقیقت کی اصل روحانی ہے۔ تاہم ایک بڑی اور عام غلط فہمی سے بچنے کے لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ بطور ایک سائنسی نظریے کے محض اشیاء کی ترکیب سے معاملہ کرتا ہے: وہ ترکیب میں شامل اشیاء کی حتمی فطرت کے بارے میں کوئی رہنمائی نہیں دیتا۔ اس نظریے کی فلسفیانہ اہمیت دو طرح سے ہے۔ اوّل تو یہ کہ یہ فطرت کی موضوعیت کو مسترد نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اس سادہ تصور کو مسترد کرتا ہے کہ جو ہر مکان میں واقع ہے: اس نقطہ نظر نے قدیم طبیعیات کے نظریۂ مادیت کو جنم دیا تھا۔ جو ہر جدید اضافی طبیعیات میں تغیر پذیر حالتوں کے ساتھ کوئی جامد شے نہیں بلکہ باہم دگر مربوط واقعات کا ایک نظام ہے۔ وائٹ ہیڈ کی پیش کردہ اس نظریے کی صورت کے مطابق تصور مادہ کی جگہ اب مکمل طور پر تصور وجود نامی نے لے لی ہے۔ دوسرے' اس نظریے کی رو سے مکان کا انحصار مادہ پرہے۔ آئن سٹائن کے مطابق کائنات غیرمحدود مکان میں کسی جزیرے کی طرح نہیں: یہ متناہی مگر غیر محدودہے۔ اس سے ماورا مکان محض کا کوئی وجود نہیں۔مادہ کی عدم موجودگی میں کائنات ایک نقطہ میں سمٹ جائے گی۔ تاہم اُس نکتہ نظر سے دیکھتے ہوئے جسے میں نے ان خطبات میں پیش کیا ہے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت میں ایک بڑی مشکل ہے اور وہ یہ کہ اس کے لحاظ سے زمان بھی غیر حقیقی ہو جائے گا۔ ایک نظریہ جو زمان سے مکان کے چوتھے بُعد کی قسم کی کوئی چیز مراد لیتا ہے وہ لازماً مستقبل کو پہلے سے طے شدہ شے کی حیثیت میں قبول کرے گا ۱۷؎ جس طرح ماضی کو متعینہ حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق زمان بحیثیت ایک آزاد تخلیقی حرکت ایک بے معنی تصور ہو گا۔ گویا وہ گزرتا نہیں۔ اس میں واقعات رونما نہیں ہوتے: صرف ہم ان واقعات سے دو چار ہوتے ہیں۔ تاہم لازمی طور پر یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ یہ نظریہ زمان کے ان ضروری خواص کو نظر انداز کرتا ہے جو ہمارے تجربے میں آتے ہیں۔ اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ زمان کی فطرت ان خواص سے محتوی ہے جنہیں یہ نظریہ فطرت کے ان پہلوئوں کو ایک باقاعدہ ترتیب دینے کے لئے بیان کرتا ہے جن کا ریاضیاتی مطالعہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایک عام آدمی کے لیے ممکن ہے کہ وہ آئن سٹائن کے نظریہ زمان کی حقیقی نوعیت کو سمجھ سکے۔ یہ بات حتمی ہے کہ آئن سٹائن کا تصور زمان، برگساں کا تصور امتداد خالص نہیں۔ اور نہ ہم اسے ایک زمان مسلسل کہہ سکتے ہیں۔ زمان مسلسل تو بقول کانٹ قانون علت و معلول کی بنیاد ہے۔ علت و معلول آپس میں یوں متعلق ہیں کہ اوّل الذکر ترتیب زمانی میں موخر الذکر کا مقدم ہے۔ لہٰذا اگر اوّل الذکر موجود نہیں تو لازم ہے کہ موخر الذکر بھی موجود نہیں ہو گا۔ اگر ریاضیاتی زمان و مکان مسلسل ہے تو پھر اس نظریے کے تحت ممکن ہو گا کہ مبصر کی رفتار کے محتاط انتخاب کے ساتھ اور اس نظام کی رفتار کے ساتھ جس میں واقعات رونما ہو رہے ہیں معلول علت سے مقدم ہو جائے۔۱۸؎ مجھے ایسا لگتا ہے کہ زمان کو مکان کے بُعد رابع کے طور پر لینا درحقیقت زمان کو ختم کرنا ہے۔

ایک جدید روسی مصنف اوسپنسکی نے اپنی کتاب میں جس کا نام "تیسرا نظام" ہے کہا ہے کہ بُعد رابع سے مراد ایک سہ بعدی شکل کی اُس جانب حرکت ہے جو اس شکل کے اپنے اندر موجود نہیں۔ جیسے نکتہ' خط اور سطح کی اس سمت حرکت جو ان میں نہیں پائی جاتی ہمیں مکان کی تین عام ابعاد کا پتہ دیتی ہیں اسی طرح سہ بعدی شکل کی ایسی سمت حرکت جو اس میں موجود نہیں۱۹؎ ہمیں مکان کے بعد رابع کا پتہ دیتی ہے۔ اب چونکہ زمان ایک فاصلہ ہے جو واقعات کو ایک دوسرے سے جدا اور ان کی ترتیب یکے بعد دیگرے کرتا ہے اور انہیں مختلف خانوں میں بانٹتا ہے یہ واضح ہے کہ یہ فاصلہ اُس سمت میں ہے جو سہ بُعدی مکان میں موجود نہیں۔ اس طرح فاصلہ جو ایک نئے بُعد کی حیثیت سے واقعات کو یکے بعد دیگرے میں منقسم کرتا ہے سہ بُعدی مکان کے ابعاد سے اُسی طرح متبائن ہے جس طرح سال سینٹ پیٹرس برگ سے متبائن ہے۔ یہ سہ بُعدی مکان کی تمام سمتوں کے لیے عمودی ہے اور کسی کے بھی متوازی نہیں۔ اسی کتاب میں کسی اور مقام پر اوسپنسکی نے ہمارے حس زمانی کو ایک مبہم حس مکان بتایا ہے اور ہماری نفسیاتی ساخت کو بنیاد بناتے ہوئے دلیل دی ہے کہ ایک' دو اور تین بُعد والی ہستیوں میں سے ہر ایک کو بلند تر بُعد ہمیشہ زماتی تواتر ہی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم سہ بُعدی ہستیاں جسے زمان کہتے ہیں وہ دراصل مکان کا ہی ایک بُعد ہے جسے ہم کما حقہ ' محسوس نہیں کرتے لیکن جو فی الحقیقت اقلیدس کے ابعاد سے' جن کو صحیح طور پر محسوس کرتے ہیں' بالکل مختلف نہیں۔ دوسرے الفاظ میں زمان ایک صحیح تخلیقی حرکت نہیں اور جنہیں ہم مستقبل کے واقعات کہتے ہیں وہ کوئی تازہ واقعات یا وقوعات نہیں بلکہ ایک نامعلوم مقام میں مقیم پہلے سے موجود اشیاء ہیں۔ تاہم اقلیدس کے سہ ابعاد سے مختلف ایک نئی سمت میں اپنی تحقیق کے دوران اوسپنسکی کو حقیقی تسلسل زمان کی ضرورت محسوس ہوئی__ ایک ایسا فاصلہ جو تسلسل کے لحاظ سے واقعات کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ چنانچہ زمان جس کو ایک مقام پر اس لئے متسلسل ٹھہرا یا گیا کہ وہاں اس حیثیت سے اس کی ضرورت تھی۔ لہٰذا اس کا وجود بھی تسلیم کر لیا گیا دوسرے مقام پر یہ اس خصوصیت سے محروم ہو گیا حتیٰ کہ اس میں اور خطوط و ابعاد مکانی میں فرق ختم ہو گیا۔ یہ زمان کی خاصیت تواتر کی وجہ سے تھا کہ اوسپنسکی نے اسے مکان کی ایک نئی سمت کے بطور قبول کیا۔ اگر درحقیقت یہ خاصیت ایک فریب ہے تو اس سے اوسپنسکی کی وہ ضرورت کہ اسے واقعۃً ایک نیا بُعد قرار دے کیسے پوری ہو سکتی ہے؟

آئیے اب تجربے کے دوسرے مدارج یعنی حیات اور شعور پر نظر ڈالیں۔ شعور کو یوں بھی تصور کیا جاتا ہے کہ یہ زندگی سے ہی متفرع ہے۔ اس کا وظیفہ یہ ہے کہ ایسا دائرہ نور فراہم کرے جس سے آگے بڑھتی ہوئی زندگی کو روشنی ملتی رہے۔ ۲۰؎ یہ ایک ایسے تنائو کی کیفیت __ خود اپنے آپ میں مرتکز ہونے کی کیفیتہیجس کے ذریعے زندگی ان تمام یادوں اور علائق سے خود کو علیحدہ کر لیتی ہے جن کا اس کے موجودہ عمل سے رشتہ نہیں ہوتا۔ اس کی کوئی واضح اور متعینہ حدود نہیں۔ یہ موقعہ اور ضرورت کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ اس کو اعمال مادی کے پس مظہر کے طور پر بیان کرنا اس کی خود مختارانہ فعالیت سے انکار ہے اور اس کی خود مختارانہ فعالیت سے انکارکا مطلب علم کی صحت سے انکار ہے جو صرف شعور کا ہی ایک مربوط اظہار ہے۔ چنانچہ شعور زندگی کے خالص روحانی اُصول کی ایک نوع ہے جوہر نہیں بلکہ ایک اُصول ناظمہ ہے، ایک مخصوص طریق کار جو لازمی طور پر اس کردار سے مختلف ہے وہ میکانکی لحاظ سے خارج سے کام کرتا ہے۔ چونکہ ہم ایک خالصتًا روحانی توانائی کا تصور نہیں کر سکتے ماسوائے ایک متعین محسوس عناصر کی ترتیب کے تعلق سے جن کے ذریعے وہ خود اپنا اظہار کرتی ہے ہمارے لیے یہی موزوں ہے کہ ہم اس ترتیب کو روحانی توانائی کی حتمی اساس کے طور پر قبول کر لیں۔ نیوٹن کی مادہ کے میدان میں اور ڈارون کی تاریخ فطرت کے ضمن میں دریافتیں ایک خاص میکانکیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ تمام مسائل دراصل طبیعیات کے مسائل ہیں۔ توانائی اور جوہر' ان خواص کے ساتھ جو ان کے اندر قائم بالذات موجود ہیں' ہر شے' بشمول حیات' فکر' ارادہ اور احساس ' کی توجیہ کر سکتے ہیں۔ میکانکیت کا تصور جو ایک خالصتًا طبیعی تصور ہے فطرت کے بارے میں کلیۃً توضیح کرنے کا دعویدار تھا۔ اس میکانکیت کے خلاف اور حمایت میں علم حیاتیات کے میدان میں ایک زبردست جنگ آج بھی جاری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حقیقت تک رسائی کا راستہ جو حواس کا مرہون منت ہے کیا اُس حقیقت مطلق تک پہنچتا ہے جو لازمی طور پر مذہب کی حقیقت مطلق سے مختلف ہے۔ کیا فطری علوم آخرش مادیت سے وابستگی رکھتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کے نظریات قابل اعتماد علم کی تشکیل کرتے ہیں کیونکہ وہ قابل تصدیق ہیں اور ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم فطرت کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں اور اسے قابو میں رکھ سکیں۔ مگر ہمیں یقیناً یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ جسے ہم سائنس کہتے ہیں وہ حقیقت تک رسائی کا کوئی واحد منظم ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ فطرت کے جزوی مطالعات کا ایک مجموعہ ہے۔ ایک کلی تجربے کے جزوی مطالعات جو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔ فطری علوم کا تعلق مادہ، زندگی اور ذہن سے ہے لیکن جونہی آپ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ مادہ، زندگی اور ذہن کس طرح آپس میں متعلق ہیں تو آپ کو ان علوم کے جزوی رویوں کا یقین ہو جاتا ہے اور اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ان علوم میں سے کوئی بھی علم آپ کے سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ حقیقتاً ان علوم کی حیثیت فطرت کے مردہ جسم پر منڈلانے والی گِدھوں کی سی ہے جو اس کے جسم سے گوشت کے مختلف ٹکڑے ہی حاصل کر سکی ہیں۔ سائنس کے موضوع کے طور پر فطرت ایک مصنوعی سی بات بن جاتی ہے۔ اس تصنع کی وجہ وہ انتخابی عمل ہے جو سائنس کو اپنے نتائج میں حتمیت حاصل کرنے کی خاطر اپنانا پڑتا ہے۔ جس لمحے آپ سائنس کے موضوع کو مکمل انسانی تجربے کے پس منظر میں دیکھتے ہیں وہ اپنا ایک بالکل مختلف کردار ظاہر کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ مذہب، جو حقیقت کو کلی طور پر جاننا چاہتا ہے اور جو انسانی تجربے کی کلیت میں یقینی طور پر ایک مرکزی مقام رکھتا ہے، کو حقیقت کے کسی جزوی نقطہ نظر سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔فطری علوم اپنی فطرت میں جزوی ہیں۔ اگر یہ علوم اپنی فطرت اور اپنے وظیفے کے بارے میں سچے ہیں تو وہ کلی نہیں ہو سکتے اور نہ کوئی ایسا تصور قائم کر سکتے ہیں جو حقیقت کے کلی تصور پر مشتمل ہو۔ لہٰذا علم کی تشکیل میں جو تصورات ہم کام میں لاتے ہیں وہ اپنی نوعیت میں جزوی ہوتے ہیں اور ان کا اطلاق کسی تجربے کی مخصوص سطح کی مناسبت سے اضافی ہوتا ہے۔ مثلاً علّت کا تصور جس کا لازمی خاصہ یہ ہے کہ وہ معلول سے پہلے ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی طبیعی علم کے مخصوص موضوع اور مواد کے حوالے سے اضافی ہوتا ہے۔ جب ہم زندگی اور ذہن کی سطح پر آتے ہیں تو یہ علت کا تصور ہمیں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا ہم اس کے لیے ایک دوسرے طرز کے نظام تصورات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ایک زندہ عضویہ کے عمل کی تحریک اور منصوبہ بندی اس کے مقصد کے حوالے سے ہوتی ہے جو ایک علت و معلول والے عمل سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ ہمارے مطالعے کا موضوع' مقصد اور نصب العین کے تصورات کا متقاضی ہے جن کا عمل داخل سے ہوتا ہے جبکہ علت معلول پر خارج سے اثرانداز ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ زندہ عضویہ کی سرگرمیوں کے ایسے بھی پہلو ہیں جو فطرت کی دوسری اشیاء جیسے ہوتے ہیں۔ان پہلوئوں کے مطالعہ میں طبیعیات اور کیمیا کی ضرورت پڑتی ہے مگر عضویہ کا کردار لازمی طور پروراثت سے متشکل ہوتا ہے اور اس کی توضیح سالماتی طبیعیات کی رو سے نہیں کی جا سکتی۔ تاہم میکانکیت کے تصور کا اطلاق زندگی پر کیا گیا ہے اور ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اس سلسلے میں کوششیں کس حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے میں ماہر حیاتیات نہیں ہوں لہٰذا مجھے مدد کے لیے ماہرین حیاتیات کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ زندہ عضویہ اور ایک مشین میں بنیادی فرق کی نشاندی کرتے ہوئے کہ محض مقدم الذکر ہی اپنی ہستی کو برقرار رکھتا ہے اور توالدو تناسل کا اہل ہے جے۔ ایس ہالڈین کہتا ہے: کہ اول الذکر اپنے وجود کو خود سنبھالنے والا، اپنی نسل خود قائم رکھنے والا ہے۔

یہ تو واضح ہے کہ اگرچہ ہم ایک زندہ عضویہ کے اندر بہت سے مظہر پاتے ہیں جن کی __ اگر ہم بنظر غائرنہ دیکھیں__ اطمینان بخش طریقے سے طبیعیاتی اور کیمیاوی میکانکیت کے تحت تشریح ہو سکتی ہے۔ ان کے پہلو بہ پہلو دوسرے مظاہر ہیں (مثلا خود کو قائم رکھنے والا اور توالدو تناسل کی صلاحیت رکھنے والا مظہر) جن کی ایسی توضیح کے امکانات عنقا ہیں۔ ماہرین میکانکیت فرض کر لیتے ہیں کہ جسمانی مشین اس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ خود کو قائم رکھ سکے' اپنی مرمت کر سکے اور اپنی نسل کو بڑھا سکے۔ ان کاخیال ہے کہ طبیعی انتخاب کے طویل عمل کے بعد آہستہ آہستہ اس قسم کے میکانکی جسموں کا ارتقاء ہوا۔ آئیے اس مفروضے کا تجزیہ کریں۔ جب ہم کسی واقعہ کو میکانکی اصطلاحات میں بیان کرتے ہیں تو ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ علیحدہ علیحدہ اجزاء کے ان مخصوص سادہ خواص کا لازمی نتیجہ ہے جو اُس واقعہ میں باہم دگر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس توضیح یا واقعے کو دوبارہ بیان کرنے کا جو ہر یہ ہے کہ مناسب تحقیق و تفتیش کے بعد ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ واقعات میں جو اجزاء ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں وہ کچھ مخصوص اور متعین خواص رکھتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس طرح کی صورت حال میں اسی طریقے سے اثرانداز ہوں گے۔ میکانکی توضیح کے لیے رد عمل دینے والے اجزا کو لازمی طور پر پہلے موجود ہونا چاہیے۔ جب تک ان اجزا کی ترتیب اور ان کے حتمی خواص کا علم نہ ہو اس وقت تک اس میکانکی توضیح کے بارے میں کچھ کہنا بے معنی ہے۔ اس تولید و تناسل کی اہل اور خود کو برقرار رکھنے والی میکانکیت کے وجود کے بارے میں کوئی دعوی ایک ایسا دعوی ہے جس کے ساتھ کسی قسم کے معنی وابستہ نہیں کئے جا سکتے۔ ماہرین عضویہ نے اس سلسلے میں بعض اوقات بے معنی اصطلاحات استعمال کی ہیں مگر 'تولید و تناسل'کی میکانکیت سے زیادہ لغو کوئی اور اصطلاح نہیں۔ جو میکانکیت والدین کے عضویوں میں ہوگی وہ تناسل کے عمل میں مفقود ہو جائے گی اور وہ ہر نسل کے لیے از سرنومتشکل ہو گی کیونکہ اسلاف کے عضویے کا کوئی حصہ اگر پھر سے پیدا ہوتا ہے تو اپنے ہم جنس کے ایک جرثومے سے۔ تولید و تناسل کی کوئی میکانکیت نہیں ہوتی۔ ایسی میکانکیت کا تصور جو اپنبے آپ کو برقرار رکھنے اور اپنے توالدو تناسل کی اہل ہو ایک ایسا تصور ہو گا جو خود تردیدی کا شکار ہے۔ایک ایسی میکانکیت جو اپنی تولید و تناسل کی اہل ہو وہ بغیر اجزاء کے ہو گی لہٰذا وہ میکانکیت ہی نہیں ہو گی۔۲۱؎

زندگی ایک منفرد مظہر ہے اور اس کے تجزیہ کے لیے میکانکیت کا تصور ناکافی اور غیر موزوں ہے۔ ایک اور ممتاز ماہر حیاتیات دریش کی اصطلاح میں اس کی حقیقی کلیت ایک ایسی وحدت ہے جو ایک دوسرے نقطہ نظر سے کثرت بھی ہے۔ نشوونما اور ماحول سے تطابق کے تمام غایتی طریق ہائے عمل میں، چاہے یہ تطابقت تازہ عادات کی تشکیل کی بنا پر ہو یا پرانی عادات کی تبدیل شدہ صورت کی بنا پر، یہ ایک ایسا کردار رکھتی ہے جو مشین کی صورت میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس کردار کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سرگرمیوں کے منبع کی توضیح کرنا ممکن نہیں سوائے اس کے کہ اس کا حوالہ ماضی بعید کو بنایا جائے اور یہ کہ اس کا مبدا روحانی حقیقت میں تلاش کیا جائے جو مکانی تجربے میں منکشف تو ہوتی ہے لیکن اسے اس تجربے کے تجزیاتی مطالعے سے تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی ایک اساسی حقیقت ہے اور طبیعیات اور کیمیا کے معمول کے دستور العمل سے متقدم ہے جسے ایک طرح سے منجمد روش سے تعبیر کر سکتے ہیں جو ارتقاء کے ایک طویل عمل میں متشکل ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ میکانکی تصور حیات جو اس نظریہ کو جنم دیتا ہے کہ عقل خود ارتقاء کی پیدا وار ہے اس طرح خود سائنس کو اپنے ہی اُصول تحقیق و تفتیش سے متصادم کر دے گا۔ اس جگہ میں ویلڈن کار کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس نے اس تصادم کے بارے میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے:

اگر عقل ارتقا کی ہی پیداوار ہے تو زندگی کی نوعیت اور اس کے آغاز کے بارے میں تمام میکانکی تصور لغو ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا وہ اُصول جسے سائنس نے اختیار کیا اس پر یقینًا نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ ہم اس سلسلے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خود متناقض بالذات ہے۔ عقل جسے ادراک حقیقت کا رویہ کہا جاتا ہے کس طرح بجائے خود کسی ایسی چیز کے ارتقا کا نتیجہ ہو سکتی ہے جو اگر موجود ہے تو اس طریق ادراک یعنی عقل کی ایک تجرید کی حیثیت سے۔ اگر عقل زندگی کا ارتقا ہے تو زندگی کا یہ تصور کہ اس سے عقل کا ارتقا ادراک حقیقت کے ایک مخصوص طریق کی صورت میں ہوا ہے لازمی طور پر کسی مجرد میکانکی حرکت کی نسبت زیادہ محسوس فعالیت کا تصور ہونا چاہیے تھا جو اپنے محتویات کے ادراک کے تجزیے کے ذریعے عقل خود اپنے آپ ظاہر کر سکتی ہے۔ اور پھر مزید اگر عقل زندگی کے ارتقا کا نتیجہ ہے تو یہ مطلق نہیں بلکہ زندگی کی سرگرمی کے حوالے سے اضافی ہے۔ اب اس صورت میں سائنس ادراک کے موضوعی پہلو کو خارج کرکے ایک مطلق معروضی تصور پر کس طرح اپنی عمارت استوار کر سکتی ہے؟ ایسے میں ظاہر ہے کہ علوم حیات کے لیے لازم ہے کہ وہ سائنسی اُصولوں پر دوبارہ غور کرے۔۲۲؎

اب میں کوشش کروں گا کہ زندگی اور فکر کی اوّلیت تک ایک دوسرے راستے سے پہنچوں اور تجربے کے تجزیے میں آپ کو ایک قدم مزید آگے بڑھائوں۔ اس سے حیات کی اوّلیت پر مزید روشنی پڑے گی اور زندگی کی نوعیت بطور ایک نفسی فعلیت کے بارے میں ہمیں مزید بصیرت حاصل ہو گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پروفیسر وائٹ ہیڈ کے نزدیک کائنات ایک ساکن وجود نہیں بلکہ واقعات کا ایک نظام ہے جو ایک مسلسل تخلیقی بہائو سے عبارت ہے۔ زمان میں فطرت کے مرور کی یہ صفت تجربے کی وہ معنویت ہے جس پر قرآن حکیم خاص طور پر زور دیتا ہے اور جو، جیسا کہ میں اب بیان کرنے کی کوشش کروں گا، حقیقت کی نوعیت کی جانب نہایت بلیغ اشارہ مہیا کرتا ہے کچھ آیات قرآنی(۱۸۸:۳' ۱۵۹:۲' ۴۴:۲۴) جو اس نکتہ سے متعلق ہیں کی طرف میں پہلے ہی آپ کی توجہ دلا چکا ہوں۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر میں ان میں کچھ مزید اضافہ کرتا ہوں۔

إِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَا لنَّہَارِ وَمَا خَلَقَ اﷲُ فِی السَّمٰوٰتِ والْأَرْضِ لَأَیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَتَّقُوْنَ(۶:۱۰)
بے شک رات اور دن کے ادل بدل میں اور اﷲ نے جو کچھ پیدا فرمایا' اس میں' نشانیاں ہیں' ان لوگوں کے لیے جو متقی ہیں۔۲۳؎
وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَخِلْفَہً لِّمَنْ أَرَادَ أَنْ یَذَّکَّرَأَوْأَرَادَ شُکُوْرًا
(۶۲:۲۵)

اور وہی ہے جس نے دن اور رات کو بنایا' ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا' ہر اس شخص کے لیے جس نے ارادہ کیا نصیحت لینے کا یا وہ شکر گزاری کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اﷲَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَیُولِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِیٓ إِلَیٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّی (۲۹:۳۱)

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اﷲ رات کو دن میں دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے چاند اور سورج کو مسخر کر رکھا ہے' ایک وقت مقرر تک کے لیے۔

یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ وَیُکَوِّرُالنَّھَارَ عَلَی الَّیْلِ (۵:۳۹)

اور وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے۔
وَھُوَ الَّذِی یُحْیِ وَیُمِیْتُ وَلَہُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ (۸۰:۲۳)

اور وہی ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور اسی کے لیے ہے گردش لیل و نہار۔

کچھ اور بھی ایسی آیات ہیں جن میں ہمارے زمان کے حساب کے متعلق اضافیت کی نشان دہی کی گئی ہے اور جو شعور کی نامعلوم سطحوں کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ ۲۴؎ تاہم میں خود کو انہی مباحث تک محدود رکھوں گا جن سے ہم اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن جو تجربے کے اس پہلو سے تعلق رکھتے ہیں جن میں گہری معنویت پائی جاتی ہے جیسا کہ محولہ بالا آیات میں اشارۃً کہا گیا ہے۔ ہمارے عہد کے نمائندہ مفکرین میں سے صرف ہنری برگساں ہی وہ مفکر ہیں جس نے امتداد فی الزمان کے مظہر کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ سب سے پہلے میں مختصر طور پر آپ کے سامنے امتداد کے بارے میں اس کے نقطہ نظر کی وضاحت کروں گا اور پھر اس کے تجزیہ کی ناموزونیت کی نشان دہی کروں گا تاکہ وجود کے زمانی پہلو کے بارے میں کامل تر نقطہ نظر کی تصریحات کو سامنے لایا جا سکے۔ ہمارے سامنے وجودیاتی مسئلہ یہ ہے کہ ہم کس طرح وجود کی حتمی ماہیت کی تعریف کر سکتے ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ کائنات زمان میں واقع ہے۔ تاہم چونکہ یہ ہمارے خارج میں ہے لہٰذا اس بات کا امکان ہے کہ ہم اس کے وجود کے بارے میں شک و شبہ ظاہر کریں۔اس 'زمان میں وقوع' کے معنی کو مکمل طور پر جاننے کے لیے ہمیں وجود کی ایک ایسی مثال کا مطالعہ کرنا چاہیے جس میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا اور جو ہمیں دوران کی بلاواسطہ بصیرت عطا کرتی ہے۔ میرا ان اشیاء کا ادراک جو میرے سامنے موجود ہیں ایک تو سطحی ہو تا ہے اور دوسرے وہ خارج سے ہوتا ہے مگر میری اپنی ذات کا میرا ادراک داخلی' قریبی اورگہرا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شعوری تجربہ وجود کی اُس خاص سطح سے تعلق رکھتا ہے جہاں ہمارا حقیقت کے ساتھ مطلق اتصال قائم ہو جاتا ہے۔ وجود کی اس سطح کے تجزیے سے وجود کی حتمی نوعیت کے بارے میں بڑی رہنمائی حاصل ہو گی۔میں اس وقت کیا محسوس کرتا ہوں جب میں خود اپنے شعوری تجربے پر اپنی توجہ مرتکز کرتا ہوں؟ برگساں کے الفاظ میں: "میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتا ہوں۔ میں سرد یا گرم ہوتا ہوں۔ میں خوش یا افسردہ ہوتا ہوں۔ میں کام کرتا ہوں یا کچھ بھی نہیں کرتا۔ میں ان اشیاء پر نظر ڈالتا ہوں جو میرے ارد گرد ہیں یا کچھ اور سوچتا ہوں۔ حسیات، احساسات' ارادے' خیالات__ یہ وہ متغیرات ہیں جن میں کہ میرا وجود منقسم ہے اور جو اپنی باری پر اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ میں مسلسل متغیر ہوتا رہتا ہوں"۔ ۲۵؎

چنانچہ میری حیات باطنی میں سکوت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سب کچھ حرکت پیہم ہے۔ حالتوں کا ایک منقطع نہ ہونے والا بہائو، ایک ایسا دائمی دھارا جس میں قیام و قرار نام کی کوئی چیز نہیں۔ تاہم زمان کے بغیر تغیر مسلسل کا تصور ممکن نہیں۔ ہمارے باطنی تجربے کی ماہیت کے بارے میں گہرے علم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نفس انسانی اپنی حیات باطنی میں مرکز سے خارج کی طرف حرکت زن ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے دو رخ ہیں جو 'بصیر ' اور 'فعال' کے طور پر بیان کئے جا سکتے ہیں۔ اپنے فعالی رخ کے اعتبار سے اس کا تعلق دنیائے مکان سے ہے۔ نفس فعال تلازماتی نفسیات کا موضوع ہے۔ روزمرہ زندگی میں نفس فعال اپنے معاملات میں خارج کی دنیا سے سروکار رکھتا ہے جو ہمارے شعور کی گزری ہوئی حالتوں کو متعین کرتی ہے اور ان حالتوں پر الگ الگ رہنے والی اپنی مکانی خصوصیت کی مہر ثبت کر دیتی ہے۔ اس صورت میں نفس انسانی گویا خارج میں رہتا ہے اور بطور کلیت کے اپنی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو محض مخصوص اور قابل شمار کیفیتوں کے ایک سلسلے کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ زمان، جس میں کہ نفس فعال رہتا ہے، ایسا زماں ہے جسے ہم 'مختصر' اور 'طویل' کہتے ہیں۔ یہ مکاں سے مشکل سے ہی متمیّز کیا جا سکتا ہے۔ ہم اسے ایک خط مستقیم کے طور پر بھی تصور کر سکتے ہیں جو ان نکات مکانی سے ترتیب پاتا ہے جو سفر کی مختلف منازل کی طرح ایک دوسرے سے خارج ہوتے ہیں۔ برگساں کے مطابق اس طرح کا زماں' زمان حقیقی متصور نہیں ہو گا۔ وجودِ زمانِ مکانی غیر حقیقی ہو گا۔ شعوری تجربے کا گہرا تجزیہ ہم پر نفس انسانی کا بصیر پہلو منکشف کرتا ہے۔ خارجی اشیاء کے نظام میں ہماری محویت، جو ہماری موجودہ صورت حال کے لئے لازمی ہے' کے پیش نظر یہ نہایت مشکل ہے کہ ہم نفس انسانی کے بصیر پہلو کی کوئی جھلک دیکھ سکیں۔ خارجی اشیا کے ساتھ مسلسل معاملات کے نتیجے میں بصیر نفس انسانی کے گرد ایک پردہ سا حائل ہو جاتا ہے اور یوں ہم سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ ایسا محض عمیق استغراق کے لمحات میں ہوتا ہے کہ جب نفس فعال تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور ہم اپنے نفس کی گہرائی میں ڈوب جاتے ہیں اور تجربے کے داخلی مرکز تک پہنچ جاتے ہیں۔ انائے عمیق کے اس حیاتیاتی عمل میں کیفیات شعور ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ بصیرا نا کی وحدت کی نوعیت ایک جرثومے کی وحدت کی طرح کی ہوتی ہے جس میں اس کے اپنے اسلاف کے تجربات موجود ہوتے ہیں__ بطور کثرت کے نہیں بلکہ ایک ایسی وحدت کے طور پر جس میں ہر تجربہ سرایت کئے ہوئے ہوتا ہے۔ خودی کی کلیت میں عددی امتیازات نہیں ہوتے۔ اس کے عناصر کی گونا گونی، نفس فعال سے مختلف، کلیتًا صفاتی ہوتی ہے۔ اس میں تغیر اور حرکت تو ہوتی ہے مگر یہ ناقابل تقسیم ہوتی ہے۔ اس کے عناصر ایک دوسرے سے گھلے ملے ہوتے ہیں اور اپنی نوعیت میں تقدیم و تاخیر سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے نفس بصیر میں زمان ایک آنِ واحد ہے جسے نفس فعال خارجی دنیا سے تعلق کے دوران آنات کے ایک سلسلے میں اس طرح تقسیم کر دیتا ہے جس طرح ایک دھاگے میں موتی پرو دیئے جاتے ہیں۔یہ دورانِ خالص ہے جو بلا آمیزش مکان ہے۔ قرآن نے اپنے مخصوص سادہ طرز بیان میں "دوران" کے ان متواتر اور غیر متواتر پہلوئوں کی جانب مندرجہ ذیل آیات میں اشارہ کیا ہے۔

وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَایَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہِ وَکَفَیٰ بِہٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہِ خَبِیْرًاo الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ الرَّحْمَٰنُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا (۵۹- ۵۸:۲۵)

اور آپ' ہمیشہ زندہ رہنے والے پر بھروسہ کریں جسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کی حمد کے ساتھ پاکی بیان کریں اور کافی ہے اس کا باخبر ہونا اپنے بندوں کے گناہوں سے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں پھر وہ متمکن ہوا عرش پر (جیسے اس کی شان ہے) وہ رحمان ہے سو پوچھ اس کے بارے میں کسی واقف حال سے

إِنَّا کُلَّ شَیْ ئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍo وَمَآ أَمْرُنَآ إِلَّاوَاحِدَۃٌ کَلَمْحِ بِالْبَصَرِ (۵۰- ۴۹:۵۴)

ہم نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے' ایک اندازے سے اور نہیں ہوتا ہمارا حکم مگر ایک بار جو آنکھ جھپکنے میںواقع ہو جاتا ہے۔

اگر ہم اس لمحہ کو خارج سے دیکھیں جس میںکہ تخلیق ہوئی اور اس کا عقلی طور پر تصور کریں تو کہا جائے گا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہزاروں سالوں پر محیط ہے کیونکہ خدا کا ایک دن قرآن کی اصطلاح میں، اور جیسا کہ عہد نامہ قدیم میں بھی آیا ہے، ہمارے ایک سال کے برابر ہے۔ ۲۶؎ ایک دوسرے نقطہ نظر سے ہزاروں سالوں پر پھیلا ہوا عمل تخلیق ایک ایسا واحد ناقابل تقسیم عمل ہے جو پلک جھپکنے کی طرح تیز ہے۔ تاہم زمان خالص کے اس باطنی تجربے کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے کیونکہ زبان کی تشکیل تو ہمارے نفس فعال کے روزمرہ زمان متسلسل کی مطابقت میں ہوئی ہے۔ شاید ایک مثال کے ذریعے اس امر کی مزید تشریح ممکن ہو۔ طبیعیات کے مطابق انسانی حس سرخ کی علت لہروں کی حرکت کی وہ سرعت ہے جس کی رفتار چار سو کھرب فی سیکنڈ ہے۔ اگر آپ اس شدید تیزی کو خارج سے مشاہدہ کر سکیں اور اس کا شمار بحساب دو ہزار فی سیکنڈ کر سکیں جو روشنی کی حد ادراک ہے تو آپ کو چھ ہزار سال اس کی گنتی کو مکمل کرنے کے لیے درکار ہوں گے ۲۷؎ مگر ہم اپنے ادراک کے یک لمحی ذہنی عمل کے ذریعے سے لہروں کی حرکت کی زود رفتاری دیکھ لیتے ہیں جن کی گنتی عملی طور پر ناممکن ہے۔ اس طرح ہمارا ذہنی عمل تسلسل کو دوران میں بدل دیتا ہے۔ نفس بصیر نفس فعال کی اس مفہوم میں اصلاح کرتا ہے کہ یہ تمام آن واین کو یعنی زمان و مکان کی چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کو جو نفس فعال کے لئے ناگریز ہیں شخصیت کی مربوط کلیت میں سمو دیتا ہے۔ یوں دوران خالص جسے ہم اپنے شعوری تجربے کے عمیق تجزیے سے دریافت کرتے ہیں کوئی الگ تھلگ اور رجعت ناپذیر آنات کا سلسلہ نہیں۔ یہ ایک ایسا نامیاتی کل ہے جس میں ماضی پیچھے نہیںرہ جاتا بلکہ حال کے ساتھ ہی متصل ہو کر کام کرتا ہے اور مستقبل کوئی ایسی چیز نہیں جو سامنے رکھی ہو اور جسے ابھی طے کرنا باقی ہے: یہ پہلے سے موجود صرف اس معنی میں ہے کہ فطرت کے اندر اس کی حیثیت ایک کھلے امکان کی ہے۔ ۲۸؎ یہ زمان بحیثیت ایک نامیاتی کل ہے جسے قرآن نے تقدیر یا مقدّر کہا ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں نے بہت غلط سمجھا ہے۔ دراصل مقدّر وہ زمان ہے جس کے امکانات کا انکشاف ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ ایسا زمان ہے جو علت و معلول کی گرفت یعنی منطقی فہم کے عائدکردہ خاکوں کے کردار سے آزاد ہے۔ مختصراً یہ وہ زمان ہے جو محسوس ہوتا ہے نہ کہ وہ زمان جس کے بارے میں فکر کیا جائے یا جس کا حساب کتاب رکھا جائے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ شہنشاہ ہمایوں اور ایران کے شاہ طہماسپ کیونکر ہم عصر تھے تو میرے پاس اس کی کوئی علتی توجیہ موجود نہیں۔ صرف یہی جواب ممکن ہے کہ حقیقت کی ماہیت ہی کچھ ایسی ہے کہ اس کے وجود پذیر ہونے والے لامتناہی امکانات میں سے صرف دو امکانات جنہیں ہم ہمایوں اور شاہ طہماسپ کی زندگیوں کی صورت میں جانتے ہیں ایک ساتھ منصّۂ شہود پر آئے۔ لہٰذا بطور تقدیر زماں کو اشیاء کا بنیادی جوہر گردانا جائے گا۔ جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: "خدا نے تمام اشیاء کو خلق کیا اور اس نے ہر ایک شے کا مقدر طے کیا"۔ ۲۹؎ یوں اشیاء کا مقدر کوئی متشدد قسمت نہیں جو کسی سخت گیر آقا کی طرح باہر سے کام کر رہی ہو بلکہ یہ تو اشیاء کی اپنی باطنی رسائی ہے یعنی ان کے قابل ظہور امکانات جو خود ان کی اپنی فطرت کی گہرائی میں موجود ہوتے ہیں اور بغیر کسی بیرونی دبائو کے احساس کے خود کو ایک تواتر کے ساتھ معرض وجود میں لاتے ہیں۔ چنانچہ امتداد کی نامیاتی کلیت کا مطلب یہ نہیں کہ تمام واقعات پورے کے پورے طور پر گویا حقیقت کے پیٹ میں موجود ہوتے ہیں اور وہ ریت گھڑی سے ریت کے ذرات کی طرح ایک ایک کرکے گرتے جا رہے ہیں۔ اگر زمان حقیقی ہے اور وہ ایک ہی طرح کے لمحات کی تکرار نہیں' جن سے شعور کا تجربہ فریب محض بن جاتا ہے' تو حقیقت کی زندگی میں ہر لمحہ طبع زاد ہوتا ہے اور ایسی شے کو جنم دیتا ہے جو بالکل ہی نادر اور پہلے سے نہ دیکھی جا سکنے والی ہوتی ہے۔قرآن کے مطابق " ہر دن وہ اپنی نئی شان رکھتا ہے" (کُلَّ یَوْم ھُوَ فِی شَان)۔ ۳۰؎ زمانِ حقیقی میںموجودگی کے لیے زمانِ متواتر کی پابندی لازم نہیں بلکہ یہ تو لحظہ بہ لحظ تخلیق ہے جو مکمل طور پر آزاد اور اپنی نوعیت میں طبع زاد ہے۔ درحقیقت ہر تخلیقی عمل ایک آزاد عمل ہوتا ہے۔ تخلیق اور تکرار دونوں متضاد عمل ہیں۔ اس لیے کہ تکرار میکانکی عمل کی خاصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے تخلیقی عمل کو میکانیاتی اصطلاحوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ سائنس تو اس کوشش میں رہتی ہے کہ وہ تجربے میں ہم آہنگیوں کو قائم کرے اور میکانیاتی تکرار کے قوانین کو دریافت کرے۔ زندگی اپنی برجستہ تدوین کے عمیق احساس کے ساتھ کلیۃً آزاد ہے۔ یہ جبریت کی حدود سے باہر ہے۔ لہٰذا سائنس زندگی کا ادراک نہیں کر سکتی۔ ایک ماہر حیاتیات جو زندگی کی میکانیاتی توضیح کا متلاشی ہوتا ہے وہ ایسا کر سکتا ہے کیونکہ اس کا مطالعہ زندگی کی محض ابتدائی صورتوں تک محدود ہے جن کا رویہ میکانیاتی عمل سے مشابہت کا اظہار کرتا ہے۔ اگر وہ حیات کا مطالعہ خود اپنے داخل کے حوالے سے کرے کہ کس طرح اس کا ذہن آزادانہ طور پر انتخاب کرتا ہے۔ ردّ کرتا ہے۔ سوچتا ہے۔ ماضی اور حال کا جائزہ لیتا ہے اور حرکی انداز میں مستقبل کا تصور کرتا ہے تو یقینی بات ہے کہ وہ اپنے میکانیاتی تصورات کے ناکافی ہونے کا معترف ہو جائے گا۔

ہمارے اس شعوری تجربے کی مناسبت سے کائنات ایک آزاد تخلیقی حرکت ہے۔ مگر ہم حرکت کرنے والی کسی ٹھوس شے کے حوالے کے بغیر حرکت کا تصور کس طرح کر سکتے ہیں۔ اس کا جواب یوں ہے کہ شے کا تصور بھی مستخرج اور ماخوذ ہے۔ ہم اشیا کا حرکت سے استخراج کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی مادی جوہر کو فرض کریں جیسا کہ دیما قریطس نے جواہر کا تصور کیا تھا کہ وہ بنیادی حقیقت ہیں تو ہمیں ان میں حرکت کہیں خارج سے لانی پڑے گی جو ان کی فطرت سے مغائر ہو گی۔ اس کے برعکس اگر ہم حرکت کو اصل تسلیم کر لیں تو ساکن اشیاء اس سے اخذ ہو سکتی ہیں۔ درحقیقت طبیعیاتی علوم نے تمام اشیاء کو حرکت میں تحویل کر دیا ہے۔ جدید سائنس میں جوہر کی اصل ماہیت برق ہے' کوئی برقیائی ہوئی چیز نہیں۔ اس کے سوا بھی اشیاء کا کوئی فوری تجربہ اس طرح نہیں ہوتا کہ وہ لازمی طور پر کوئی خاص متعین خدوخال رکھتی ہوں کیونکہ فوری تجربہ ایک ایسا تسلسل ہوتا ہے جس میں کوئی امتیازات نہیں ہوتے۔ جہنیں ہم اشیاء کہتے ہیں وہ فطرت کے عملِ تسلسل میں واقعات ہیں جنہیں فکر مکانیت عطا کرتا ہے اور انہیں عملی مقاصد کے پیش نظر ایک دوسرے سے علیحدہ قرار دیتا ہے۔ کائنات جو ہمیں مختلف اشیاء کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے کوئی ایسا ٹھوس مواد نہیں جو خلا میں جگہ گھیرے ہوئے ہو۔ یہ کوئی شے نہیں بلکہ ایک عمل ہے۔ برگساں کے نزدیک فکر کی نوعیت متسلسل ہے: وہ حرکت کے ساتھ معاملہ نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے ساکن نکات کے سلسلے کی صورت میں دیکھے۔ لہٰذا فکر جو ساکن تصورات کے ساتھ کام کرتا ہے ان اشیا کو جو اپنی فطرت میں متحرک ہیں ساکن اور غیر متحرک بنا کر پیش کرتا ہے۔ ان غیر متحرک اشیا کا باہم ہونا اور ان کی یکے بعد دیگرے وقوع پذیری ہی وہ اساس ہے جن سے زمان و مکان جنم لیتے ہیں۔

برگساں کے نزدیک حقیقت آزاد' ناقابل تعین' تخلیقی اورحیاتی قوت محرکہ ہے جس کی ماہیت ارادہ ہے جسے فکر حدودِ مکان میں لا کر کثرت اشیا کی صورت میںدیکھتا ہے۔ یہاں اس نظریہ پر مکمل بحث ممکن نہیں۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ برگسانی حیاتیت کی انتہا ارادے اور فکر کی ناقابل مفاہمت دوئی ہے۔اس کی وجہ فکر کے بارے میں اس کا جزوی نکتہ نظر ہے۔ اس کے نزدیک فکر ایک میکانکیت بخش سرگرمی ہے جس کی ہیئت خالص مادی ہے اور جو مقولات اس کے تصرف میں ہیں وہ محض میکانکی ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے اپنے اوّلین خطبہ میں ذکر کیا ہے فکر اپنی حرکت میں ایک عمیق تر پہلو بھی رکھتا ہے۔ ۳۱؎ یہ اگرچہ حقیقت کو ساکن اجزا میں منقسم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس کا اصل کام یہ ہے کہ تجربے کے عناصر کی تالیف و ترکیب کرے۔ اور اس مقصد کے لئے وہ تجربے کی مختلف سطحوں کے لئے مناسب مقولات کا استعمال کرتا ہے۔ وہ زندگی کی طرح ہی نامیاتی ہے۔ زندگی کی حرکت جو کہ نامیاتی نشو و نما ہے اپنے مختلف درجات میں مرحلہ در مرحلہ ترکیب و ائتلاف سے عبارت ہے۔ اس ترکیب کے بغیر اس کا عضویاتی ارتقا ممکن نہیں۔اس کا تعین اس کے مقاصد سے ہوتا ہے اور مقاصد کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ فکر پر اسکا مدار ہے۔ فکر کی سرگرمیاں مقاصد پر منحصر ہیں۔ شعوری تجربے میں زندگی اور فکر ایک دوسرے میں رچے بسے ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ ایک وحدت کی تشکیل کرتے ہیں۔ چنانچہ فکر اپنی ماہیت میں زندگی ہی ہے۔ پھر برگساں ہی کے الفاظ میں چونکہ حیاتیاتی قوت خلّاقانہ آزادی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے لہٰذا وہ فوری یا بعید مقاصد کی روشنی سے مستنیر نہیں ہوتی۔ وہ نتائج کی بھی خواہاں نہیں۔ وہ اپنے رویے میں مکمل طور پر ایک مطلق العنان' بے سمت' ہیولائی اور ناقابل پیش بینی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں برگساںکا ہمارے شعوری تجربے کاتجزیہ نامناسب اور ناکافی محسوس ہوتا ہے۔ وہ شعوری تجربے کو یوں سمجھتا ہے گویا ماضی حال کے ساتھ حرکت پذیر اور عمل پیرا ہے۔ وہ یہ بات نظر انداز کر دیتا ہے کہ شعور کی وحدت میں آگے دیکھنے کا پہلو بھی ہے۔ زندگی تو محض اعمالِ توجہ کا تسلسل ہے اور توجہ کا عمل شعوری یا لاشعوری مقصد کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حتی کہ ہمارا عمل ادراک بھی ہماری فوری دلچسپیوں اور مقاصد سے متعین ہوتا ہے۔ فارسی شاعر عرفی نے انسانی ادراک کے اس پہلو کا بہت ہی خوبصورت انداز میں اظہار کیا ہے۔

زنقص تشنہ لبی داں بعقل خویش مناز دلت فریب گر از جلوہ سراب نخورد ۳۲؎

شاعر یہ مفہوم ادا کرنا چاہتا ہے کہ اگر تمہاری پیاس میں خامی نہ ہوتی اور تم سچی پیاس رکھتے تو صحرا کی ریت بھی تمہیں جھیل دکھائی دیتی۔ فریب خوردگی سے تو تم اس لئے بچ گئے کہ تمہارے اندر پانی کے لیے طلب صادق نہیں تھی۔ تم نے صورت حال کا ایسا ہی ادراک کیا جیسی کہ وہ ہے کیونکہ تمہیں اس کا ایسا ادراک کرنے میں دلچسپی نہیں تھی جیسی کہ وہ نہیں ہے۔ پس مقاصد اور اغراض جو شعوری یا غیر شعوری رجحانات کی صورت میں موجود ہیں وہ ہمارے شعوری تجربے کا تانا بانا ہیں۔ اور مقصد کا تصور مستقبل کے حوالے کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی کے بارے میں تو کوئی شبہ نہیں کہ وہ حال میں کارفرما ہوتا ہے مگر ماضی کی حال میں یہ کارفرمائی ہی تمام شعور نہیں ہے۔ مقاصد نہ صرف شعور کی موجودہ حالت بلکہ اس کے مستقبل کی طرف بڑھنے کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ حقیقت میں وہ ہماری زندگی کی آگے کی طرف حرکت کی تشکیل کرتے ہیں اور یوں پیشگی ہی ان حالتوں پر اثر انداز ہو جاتے ہیں جو ابھی ظاہر ہونے والی ہیں۔ مقاصد سے ہمارے اعمال کا متعین ہونا دراصل اس بات سے متعین ہونا ہے کہ کیا ہونا چاہیے۔ لہٰذا ماضی اور مستقبل دونوں شعور کی موجودہ حالت میں عمل پیرا ہوتے ہیں اور جیسا کہ برگساں نے ہمارے شعوری تجربے کے تجزیے سے ظاہر کیا ہے مستقبل مکمل طور پر غیر متعین نہیں ہوتا۔ شعور میں توجہ کی حالت میں بازیافت اور تخیل دونوں محرکات شامل ہوتے ہیں چنانچہ ہمارے شعوری تجربے کی اس نسبت سے حقیقت کوئی اندھی قوت نہیں جو مکمل طور پر فکر سے غیر منور ہو۔ اس کی فطرت سرتاپا غایاتی ہے۔

تاہم برگساں حقیقت کے غایتی کردار کو اس بنا پر قبول نہیں کرتا کہ غایت زمان کو غیر حقیقی بنا دیتی ہے۔ اس کے مطابق مستقبل کی راہ حقیقت کے لیے کھلی رہنی چاہیے ورنہ حقیقت آزاد اور خلّاق نہیں رہے گی۔اس میں شبہ نہیں کہ اگر غایت سے مطلب یہ ہو کہ کسی پہلے سے متعین مقصد یا منزل کی روشنی میں کسی منصوبہ پر کام ہو رہا ہے تو یہ زمان کو غیر حقیقی کر دے گا اور کائنات کو بھی ایک ایسی پہلے سے موجود ازلی و ابدی سکیم یا ڈھانچے کی تخلیق نو تک محدود کر دے گا جس میں انفرادی واقعات پہلے سے ہی اپنی مناسب جگہ پر موجود ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ اپنی باری پر ایک زمانی سیل میں جسے تاریخ کہا جاتا ہے ظاہر ہوں۔ سب کچھ پہلے ہی ازل میں کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ واقعات کا مترتب زمانی ظہور ازلی و ابدی سانچے کی محض ایک نقل ہے۔ یہ نقطہ نظر اس میکانکیت سے مختلف نہیں جسے ہم پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔۳۳؎ درحقیقت یہ نقاب پوش مادیت ہے جس میںتقدیر یا قسمت متشدد جبریت کی جگہ لے لیتی ہے، جس میں انسانی حتی کہ الوہی آزادی کی بھی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اگر کائنات فی الواقعہ کسی متعین مقصد کی طرف رواں دواں ہے تو پھر یہ آزاد اور ذمہ دار افراد کی دنیا نہیںہو سکتی۔ یہ محض ایک سٹیج ہو گی جس پر پتلیاں ایک قسم کے پیچھے سے نچانے والے کی حرکت پر ناچتی ہیں۔تاہم غایت کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ ہم اپنے شعوری تجربے میں دیکھتے ہیں کہ زندگی کرنا مقصد اور غایات کی صورت گری کرنا اور انہیں تبدیل کرتے رہنا اور ان کی فرمانروائی میں آنا ہے۔ ذہنی زندگی اس مفہوم میں غایتی ہے کہ اگرچہ کوئی ایسا نہایت بعید مقصد موجود نہیں جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیںتاہم جوں جوں زندگی کے عمل میں پھیلائو اور ترقی ہوتی رہتی ہے توں توں نئے نئے مقاصد' غایات اور آدرشی اقداری سلسلوں کی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ ہماری نئی تشکیل ہماری پچھلی تشکیل کے انہدام سے ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ زندگی وہ راستہ ہے جو اموات کے سلسلوں میں سے گذرتا ہے۔ لیکن اس راستے کے تسلسل میں بھی ایک نظم موجود ہے۔ اشیاء اور ان کی قدروقیمت کے ضمن میں دفعۃً تبدیلیوںکے باوجود اس نظام کی مختلف منازل باہم عضویاتی طور پر مربوط ہوتی ہیں۔ فرد کی تاریخ حیات اپنی کل میں ایک وحدت ہے: وہ باہمی طور پر منتشر واقعات کا کوئی سلسلہ نہیں۔ اگر مقصد سے ہم پہلے سے معلوم اور پہلے سے متعین کوئی منزل مقصود مراد لیں جس کی جانب ساری مخلوق رواں دواں ہے تو پھر یقینی طور پر عمل کائنات یا کائنات کی زمان میںحرکت بے مقصد ہو گی۔ کیونکہ یوں تمام خلائق کسی متعینہ منزل کی طرف پہلے سے ہی حرکت زن ہوں گی۔ عمل کائنات کو مقصد سے اس مفہوم میں آشنا کرنا اس عمل کی طبع زاد حیثیت اور اس کے خلاّق کردار کو برباد کرنا ہے۔ اس کے پہلے سے متعین مقاصد کا مطلب اس کے عمل کی تحدید ہے۔ اس کے مقاصد محض اس لیے ہیں کہ وہ وجود میں آئیں جو ضروری نہیں کہ پہلے سے متعین ہوں۔ زماں کا عمل ایک پہلے سے کھینچی ہوئی لکیر کی طرح نہیں بلکہ ایک ایسی لکیر کی طرح ہے جو کھینچی جا رہی ہو، جو کھلے امکانات کو وقوعات میں لاتی ہے۔ وہ تو اس مفہوم میں مقصدی ہے کہ وہ اپنا ایک انتخابی کردار رکھتی ہے اور وہ خود کو حال میں لاتے ہوئے مستعدی کے ساتھ ماضی کو بھی باقی رکھتی ہے اور اس میں اضافہ بھی کرتی ہے۔ میرے ذہن کے مطابق قرآنی نقطہ نگاہ سے اس تصور سے زیادہ اور کوئی تصور مغائر نہیں کہ کائنات ایک پہلے سے طے شدہ منصوبے کی محض ایک زمانی تفصیل ہے۔ جیسا کہ میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ قرآن کی نظر میں کائنات میں بڑھتے رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔۳۴؎ یہ ایک نشو و ارتقا پذیر کائنات ہے نہ کہ ایک بنا بنایا مصنوع جسے اس کے بنانے والے نے اپنے ہاتھوں سے تیار کرکے بہت پہلے سے چھوڑ دیا ہو اور وہ اب مکان میں ایک مردہ مادی تودے کی صورت میں بکھرا پڑا ہے جس کا زمان سے کوئی تعلق نہیں اور اس لئے وہ عملاً لاشے ہے۔ اب ہم اس مقام پر ہیں کہ اس آیت کا مطلب سمجھ سکیں

وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ أَرَادَأَن یَذَّکَّرَ أَوْأَرَادَ شُکُوْرًا
(۶۲:۲۵)

" اور یہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا دیا ہے ان کے لیے جو خدا کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۳۵؎ تواتر زمانی کا اظہار جس طرح ہماری ذات میں ہوتا ہے اس کی تنقیدی تعبیر ہمیں حقیقت مطلق کے اس تصور تک لے جاتی ہے کہ وہ ایک خالص استدام ہے جس میں فکر و حیات اور غایت ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہو کر ایک عضویاتی وحدت قائم کرتے ہیں۔ ہم اس وحدت کا ادراک نہیں کر سکتے ما سوا اس کے کہ ہم اسے وحدت نفس گردانیں جو سب پر محیط ایک موجود فی الخارج نفس ہے اور جو تمام افراد کی زندگی اور فکر کا منبع مطلق ہے۔میرے نزدیک برگساں کی غلطی یہ ہے کہ اس نے زماں خالص کو نفس پر متقدم جانا حالانکہ اسی کے لئے خالص دوران قابل اثبات ہے۔نہ خالص مکان اور نہ ہی خالص زمان اشیاء اور واقعات کی گونا گونی کو ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا رکھ سکتے ہیں۔ یہ تو ذات ازلی کا ایک عمل بصیر ہے جو استدام کی کثرت کو جو کہ لا تعداد موجود لمحات میں منقسم ہے ایک مرکب نامیاتی کل میں بدل دیتا ہے۔ استدام خالص میں موجودگی کا مطلب خودی کی موجودگی ہے اور خودی سے مراد یہ کہنے کے قابل ہونا ہے کہ "میں ہوں"۔ وہی صحیح معنوں میں وجود رکھتا ہے جو یہ کہہ سکے کہ "میں ہوں" ۔ یہ "میں ہوں" کی سطح ہی ہے جو میزان ہستی میں شے کے مقام کا تعین کرتی ہے۔ ہم سب بھی کہتے ہیں "میں ہوں" مگر ہمارا "میں ہونا" نفس اور غیر نفس کے مابین امتیاز سے ظہور پاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں نفس مطلق غنی عن العٰلمین ہے۔ ۳۶؎ اس کے لئے نفس غیر کوئی متقابل ذات نہیں ورنہ وہ ہمارے متناہی نفوس کی طرح ہوتا اور اسے بھی تعلق مکانی میں ذات غیر سے متقابل ہونا پڑتا۔ جسے ہم فطرت یا نفس غیر کہتے ہیں وہ تو حیات خداوندی میں محض ایک لمحہ گزراں ہے۔ اس کا "میں ہونا" تو خود منحصر' اساسی اور مطلق ہے۔ ۳۷؎ ہمارے لیے ایسے نفس کا ایک واضح اور مکمل تصور ناممکن ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے۔

لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْ ئٌ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (۱۱:۴۳)
نہیں کوئی شے اس جیسی پھر بھی وہ سنتا ہے دیکھتا ہے۔ ۳۸؎

اب نفس، کردار کے بغیر ناقابل فہم ہے یعنی ایک یکساں طرز کے رویے کے بغیر۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں عالم فطرت مادے کا کوئی ڈھیر نہیں ہے جو خلا میںواقع ہے بلکہ یہ حوادث کی ایک ترکیب ہے، کردار کا ایک منظم انداز ہے اور یوں نامیاتی طور پر نفس مطلق سے متعلق ہے۔ فطرت کا ذات الٰہیہ سے وہی تعلق ہے جو کردار کا نفس انسانی سے ہے۔ قرآن نے ایک دل آویز انداز میں اسے سنت اﷲ قرار دیا ہے۔ ۳۹؎ انسانی نقطہ نظر سے ہمارے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ انائے مطلق کی تخلیقی فعلیت کی ایک تعبیر ہے۔ جب یہ آگے کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے تو ایک خاص لمحے میں یہ متناہی ہوتی ہے مگر چونکہ جس نفس سے اس کا نامیاتی تعلق ہے وہ خلّاق ہے اس میں توسیع ممکن ہے۔ نتیجۃً یہ اس مفہوم میں لا محدود ہو جاتی ہے کہ اس کی توسیع کے لیے کوئی سی بھی حد آخری نہیں ہوتی۔ اس کی لامحدودیت بالقوہ ہے، فی الواقع نہیں۔ لہٰذا فطرت کو ایک ذی حیات اور پیہم ارتقا پذیر عضویہ سمجھنا چاہیے جس کے ارتقاء کی خارج میں کوئی آخری حد نہیں۔ وہ صرف باطنی طور پر محدود ہے یعنی اس محیط کل خودی کے طور پر، جو کل کو زندہ اور قائم رکھتی ہے، وہ نفس مشہود جس نے کل میں اپنی روح پھونک رکھی ہے اور اسے سہارا دے رکھا ہے۔ جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے۔

وَأَنَّ إِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی (۴۲:۵۳)

اور بے شک پہنچنا ہے ( سب کو) اﷲ تک یوں وہ نقطہ نظر جو ہم نے اپنایا ہے وہ طبیعیاتی سائنس کو ایک تازہ روحانی مفہوم عطا کرتا ہے۔ فطرت کا علم سنت اﷲ کا علم ہے۔ فطرت کے مطالعے کے دوران ہم انائے مطلق کے ساتھ قرب و اتصال کی تلاش میں ہوتے ہیں جو عبادت کی ہی ایک دوسری قسم ہے۔ ۴۰؎

اوپر کی بحث میں زمانے کو ہم نے حقیقت مطلق کے ایک اساسی عنصر کی حیثیت سے لیا ہے۔ دوسرا نقطہ ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہم ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کی اس دلیل کا جائزہ لیں جو اس نے زمانے کے غیر حقیقی ہونے کے متعلق پیش کی ہے۔ ۴۱؎ ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کے مطابق زمانہ غیر حقیقی ہے کیونکہ ہر واقعہ ماضی حال اور مستقبل بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ملکہ این کی موت ہمارے لیے ماضی کا ایک واقعہ ہے۔ اس کے معاصرین کے لیے وہ حال تھا اور ولیم سوم کے لیے وہ مستقبل کی بات تھی۔ لہٰذا ملکہ این کی موت کا واقعہ ان خواص کو جامع ہے جو باہم متناقض ہیں۔ واضح رہے کہ یہ دلیل اس مفروضے پر قائم ہے کہ زمان کی متسلسل نوعیت قطعی ہے۔ اگر ہم ماضی و حال اور مستقبل کو زمان کے لیے لازم تصور کریں تو ہمیں زمان کی تصویر ایک خط مستقیم کی صورت میں نظر آئے گی جس کے کچھ حصوں پر ہم سفر کر آئے ہیں اور انہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور جس کے کچھ حصے ایسے ہیں جن پر ہمیں ابھی سفر کرنا ہے۔ یہ زمان کو بطور ایک زندہ تخلیقی لمحے کے نہیں بلکہ ایسے ساکت مطلق کے طور پر قبول کرنے کے مترادف ہے جس میں واقعات اپنی متعین شدہ صورت میں ایک ترتیب سے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اب ایک تسلسل سے ظاہر ہو رہے ہیں جس طرح خارج میں موجود ناظر کے سامنے فلم کی تصاویر چل رہی ہوں۔ ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ ملکہ این کی موت ولیم سوئم کے لیے مستقبل کا واقعہ ہے بشرطیکہ ہم اس واقعے کو ایک ایسا واقعہ سمجھیں جو بنا بنایا مستقبل میں پڑا ہے اور اپنے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔مگر جیسا کہ براڈ نے درست طور پر نشان دہی کی ہے مستقبل کے واقعے کو ہم بطور واقعہ شمار نہیں کر سکتے۔ ۴۲؎ ملکہ این کی موت سے قبل اس کی موت کا واقعہ موجود نہیں تھا۔ این کی زندگی کے دوران اس کی موت کا واقعہ فطرت میں ایک ایسے امکان کی حیثیت سے موجود تھا جو ابھی ظہور میں نہیں آیا تھا۔ اس کو ہم اس وقت واقعہ شمار کریں گے جب وہ اپنے دوران ظہور اس نکتہ پر پہنچا جبکہ وہ حقیقی طور پر ایک واقعہ کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ ڈاکٹر میک ٹیگرٹ کی دلیل کا جواب یہ ہے کہ مستقبل تو محض ایک کھلے امکان کی صورت میں موجود ہوتا ہے: وہ ایک حقیقت کی حیثیت سے قائم نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ واقعہ کو جب ہم ماضی اور حال کے طور پر بیان کرتے ہیں تو وہ ایسے خواص کا مجموعہ بن جاتا ہے جن کا اکٹھا ہونا محال ہے۔ جب ایک واقعہ مثلاً ا رونما ہوتا ہے تو وہ قبل ازیںظہور شدہ تمام واقعات کے ساتھ ایک ایسے تعلق کو قائم کرتا ہے جو ناقابل تحویل ہے۔ یہ تعلق اس تعلق سے متاثر نہیں ہوتا جو ا کا آئندہ آنے والے واقعات کے ساتھ ہو گا۔ ان تعلقات کے بارے میں کوئی صحیح قصہ کبھی غلط اور کوئی غلط قصہ کبھی صحیح نہیں ہو سکتا۔اب اس سلسلے میں کوئی منطقی سقم نہیں رہا کہ ہم کسی واقعہ کو بطور ماضی اور حال دونوں کے لیں۔ گو یہ تسلیم ہے کہ یہ نکتہ اشکال سے خالی نہیں ہے اور ابھی مزید سوچ بچار چاہتا ہے۔ زمان کی سریت کے مسئلہ کو حل کرنا کوئی اتنا آسان بھی نہیں۔ ۴۳؎ آگسٹائن کے پرمغز الفاظ آج بھی اتنے ہی سچ ہیں جتنے اس وقت تھے جب کہ وہ کہے گئے:

اگر کوئی زمان کے بارے میں مجھ سے سوال نہ کرے تو میں اس کو جانتا ہوں اور اگر کوئی مجھے اس سوال کی وضاحت کرنے کو کہے تو میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیںجانتا۔۴۴؎

ذاتی طور پر میری سوچ کا رجحان یہ ہے کہ زمان حقیقت کا ایک لازمی عنصر ہے مگر زمان حقیقی متسلسل نہیں ہے جس کی تخصیص ماضی حال اور مستقبل میں کی جائے: وہ خالص استدام ہے، یعنی بغیر تواتر کے تغیر جسے میک ٹیکرٹ کی دلیل چھوتی بھی نہیں۔ زمان متسلسل وہ خالص استدام ہے جسے فکر اجزا میں منقسم کرتا ہے __ ایک ایسی ترکیب جس کے ذریعے حقیقت اپنی ناقابل انقطاع خلّاق سر گرمی کا کمیتی پیمانوں میں اظہار کرتی ہے۔ یہی وہ مفہوم ہے جس کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے۔

وَلَہُ اخْتِلَافُ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ
یہ اختلاف رات اور دن اسی کے لیے ہے۴۵؎

مگر ایک سوال جو آپ پوچھنا چاہیں گے یہ ہے کہ کیا تغیر کا اسناد انائے مطلق سے ہو سکتا ہے۔ ہم بطور نوع انسانی اپنے وظیفہ میںایک خود مختار عمل پذیر دنیا سے وابستہ ہیں۔ ہماری زندگی کے حالات و ظروف زیادہ تر ہمارے لیے خارجی ہیں۔ ہم جس زندگی کو جانتے ہیں وہ محض خواہش و جستجو، ناکامی یا کامیابی سے عبارت ہے۔ یعنی ایک صورت حال سے دوسری صورت حال تک لگاتار تغیر۔ ہمارے نقطہ نظر سے زندگی نام ہے تغیر کا اور تغیر لازمی طور پر نقص اور محرومی سے عبارت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا شعور ہی چونکہ وہ واحد نقطہ ہے جہاں سے علم شروع ہوتا ہے۔ ہم اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں تغیر و تشریح کی پابندی سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا زندگی کے فہم و ادراک کے لیے تشبیہی اور تجسیمی تصور سے گریز ممکن نہیں۔ زندگی صرف باطنی طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ سرہند کے شاعر ناصر علی نے بت کو برہمن سے یہ کہتے ہوئے تصور کیا:

مرا بر صورت خویش آفریدی
بروں از خویشتن آخر چہ دیدی ۴۶؎

(تونے مجھے اپنی صورت پر بنایا ہے۔ تونے اپنے آپ سے باہر آخر کیا دیکھا ہے)؟ انسانی زندگی کے قیاس پر حیات الٰہیہ کو سمجھنے کا یہی اندیشہ تھا جس کے پیش نظر اسلامی سپین کے مسلمان ماہر الٰہیات علامہ ابن حزم نے خدا سے حیات کو منسوب کرنے میں تامل کیا۔ اس نے کمال ذہانت سے یہ تجویز کیا کہ خدا کو زندہ کہا جائے مگر اس طرح کا زندہ نہیں جس طرح کا تجربہ ہمیں زندہ ہونے کا ہے بلکہ اس طرح سے جس طرح کہ قرآن میں اُسے ذی حیات بیان کیا گیا ہے۔ ۴۷؎ اپنے آپ کو شعوری تجربے کی سطحی تعبیر تک محدود کرتے ہوئے اور اس کی گہرائی کے رخ کو نظرانداز کرتے ہوئے علامہ ابن حزم نے زندگی کو لازماً بطور ایک تغیر متسلسل کے لیا ہو گا۔ جو ایک مزاحم ماحول کی جانب ہمارے رویوں کے تسلسل پر مشتمل ہے۔واضح رہے کہ تغیر متسلسل عدم تکمیل کی علامت ہے اور اگر ہم اپنے آپ کو اس نظریۂ تغیر تک محدود کر لیں تو کمال الٰہیہ اور حیات الٰہیہ میں موافقت پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ابن حزم نے بھی لازمی طور پر محسوس کیا ہو گا کہ خدا کے کمال کو اس کی حیات کی قیمت پر ہی باقی رکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اس مشکل سے بچنے کا ایک راستہ ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے انائے مطلق حقیقت کی کلیت کا نام ہے۔ وہ کوئی ایسا وجود نہیں کہ جو کائنات سے مغائر کہیں اور واقع ہے اور باہر سے اسے دیکھ رہا ہے۔ نتیجۃً اس کی زندگی کی پرتیں خود اس کی اپنی ذات کے اندرون سے متعین ہوں گی۔ چنانچہ تغیر کے اس مفہوم کا کہ یہ نامکمل حالت سے مکمل حالت کی طرف یا مکمل سے نامکمل کی طرف انتقال کا نام ہے خدا پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔ مگر تغیر کا یہ مفہوم ہی زندگی کی واحد ممکن صورت نہیں۔ زیادہ گہری نظر سے دیکھئے تو ہمارا شعوری تجربہ یہ ظاہر کرے گا کہ استدام متسلسل کی ظاہریت کے نیچے ایک حقیقی استدام ہے۔ انائے مطلق کا وجود استدام خالص میں ہے جہاں تغیر تبدیل ہوتے ہوئے رویوں کے تسلسل کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل تخلیق کا عمل ہے۔ اس سے انائے مطلق کو نہ تھکن ہوتی ہے۴۸؎ نہ اسے اُونگھ آ سکتی ہے اور نہ نیند اس کی راہ میں روک بن سکتی ہے۔۴۹؎ تغیر کے اس مفہوم میں انائے مطلق کے بے تغیر ہونے کا اگر ہم تصور کریں تو ہم اسے غیر متحرک' بے ارادہ، جامد' بے تعلق اور مطلق لاشے بنا دیں گے۔ نفس خلاّق کے لیے تغیر کا مطلب غیر مکمل ہونا نہیں ہو سکتا۔ نفس خلاّق کا مکمل ہونا اس کے میکانکی طور پر بے حرکت ہونے کا نام نہیں جیسا کہ ارسطو کے انداز میں ابن حزم نے سوچتے ہوئے تصور کیا ۔ یہ کمال اس کی تخلیقی کارکردگی کی وسیع تر بنیاد اور اس کی تخلیقی ویژن کے غیر متناہی دائرہ عمل میں ہے۔ خدا کی حیات انکشاف ذات سے عبارت ہے نہ کہ کسی تصور اعلٰیٰ تک پہنچنے کی تگ و دو سے۔ انسان کا "ابھی نہیں" تو یہ مفہوم رکھتا ہے کہ وہ کسی مقصد کی جستجو میں ہے یا وہ اس کو حاصل کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔ مگر خدا کے ہاں "ابھی نہیں" کا مفہوم اس کی ذات کے لامحدود تخلیقی امکانات کا ناقابل انقطاع ظہور ہے اور اس کی کلیت اس کے اس تمام عمل میں قائم رہتی ہے۔

خود اپنے ہی تکرار متسلسل میں وہ ہمیشہ سے ایک ہی طرح سے موجزن ہے' لکھوکھا محرابیں جست لگا کر اور مل جل کر اسے سہارے ہوئے ہیں زندگی کرنے کی محبت تمام اشیاء سے پھوٹ رہی ہے بڑے بڑے ستارے اور بے مایہ قطرے' یہ تمام کھچائو اور یہ تمام تگ ودو خدا میں ابدی سکون ہے (گوئٹے) ۵۰؎

چنانچہ تجربے کے فعال اور قدری پہلوئوں سے متعلقہ تمام حقائق پر محیط فلسفیانہ تنقید ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتی ہے کہ حقیقت مطلقہ وہ تخلیقی زندگی ہے جس کے پیچھے حکمت و بصیرت کارفرما ہے۔ اس زندگی کو بطور ایک انا کے تعبیر کرنا اسے انسان پر قیاس کرنے کے مترادف نہیں۔ یہ محض تجربے کی اس ایک سادہ حقیقت کو قبول کرنا ہے کہ زندگی ایک بے ہیٔت سیال شے نہیں بلکہ وحدت کی تنظیم کا ایک اصول' ایک ترکیبی سرگرمی ہے جو ایک تعمیری مقصد کے پیش نظر زندہ عضویوں کے انتشار پذیر میلانات کو مربوط کرتی ہے اور انہیں ایک نقطے پر مرکوز رکھتی ہے۔فکر کا عمل جو لازمی طور پر اپنی نوعیت میں اشاراتی ہے زندگی کی اصل فطرت کو اوجھل کر دیتا ہے اور اسے ایک خاص قسم کے ایسے عالمگیر بہائو میں دکھاتا ہے جو تمام اشیاء میں موجود ہے۔ یوں زندگی کا فکری منظر نامہ لازمی طور پر وحدت الوجودی ہے۔ مگر ہم زندگی کے قدری پہلو کا علم براہ راست باطن سے حاصل کر سکتے ہیں۔ وجدان زندگی کو ایک خود مرکوز انا کی حیثیت سے منکشف کرتا ہے۔ یہ علم گو نامکمل ہے کیونکہ یہ محض ایک نکتہ آغاز ہے یہ حقیقت کی فطرتِ مطلق ہم پر براہ راست منکشف کرتا ہے۔ چنانچہ تجربے کے حقائق اس نتیجہ تک پہنچنے کا جواز فراہم کرتے ہیں کہ حقیقت کی فطرت مطلقہ روحانی ہے اور یہ کہ اسے لازمی طور پر ایک انا کی حیثیت میں تصور کرنا چاہیے۔ مگر مذہب کے عزائم فلسفے کے عزائم سے بلند ہوتے ہیں۔ فلسفہ اشیاء کے بارے میں عقلی نقطہ نظر ہے اور وہ اس تصور سے آگے نہیں بڑھتا جو تجربے کی کثرتیت کو ایک تنظیم میں لا سکے۔ وہ گویا حقیقت کو قدرے فاصلے سے دیکھتا ہے۔ مذہب حقیقت سے زیادہ گہرے تعلق کا متلاشی ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے جبکہ دوسرا ایک زندہ تجربہ، تعلق اور اتصال ہے۔ اس اتصال کو پانے کے لیے فکر کو اپنی سطح سے بہت بلند اُٹھنا ہو گااور اپنی تسکین ایک ایسے ذہنی رویے میں کرنا ہو گی جس کو مذہب "دُعا" کہتا ہے۔ یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو پیغمبر اسلام کے لبوں پر تھے۔۵۱؎

<<پچھلا  اگلا>>

مذہبی واردات کے انکشافات...

مذہبی واردات کے انکشافات کا فلسفیانہ معیار


دیگر زبانیں
English
اردو

logo Iqbal Academy
اقبال اکادمی پاکستان
حکومتِ پاکستان
اقبال اکادمی پاکستان